پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف نے ایک مرتبہ پھر خود پر چلائے جانے والے مقدمات میں ہونے والی پیش رفت پر تنقید کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اُنھیں’’سزا دی نہیں جارہی بلکہ دلوائی جا رہی ہے۔‘‘
نواز شریف، اُن کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر بدھ کو انتہائی سخت سکیورٹی میں اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیش ہوئے۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کے سامنے پیش ہونے کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں نواز شریف کا کہنا تھا، ’’1999 میں بھی میں یہ بات کہتا تھا، جب میرے خلاف جہاز اغوا کرنے کا کیس سامنے تھا۔ اس وقت بھی میں نے یہ باتیں کیں تھیں اور ہوبہو وہ سب باتیں، واقعات سامنے آئی تھیں۔‘‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’’میں آج پھر واضح طور پر کہہ رہا ہوں کہ سزا دی نہیں جا رہی، یہ دلوائی جا رہی ہے۔‘‘
عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے پاناما دستاویزات سے متعلق فیصلہ پر اپنی نظرثانی کی درخواست مسترد ہونے کے بارے میں سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کو ایک مرتبہ پھر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’’وہ فیصلہ نہیں تھا، وہ ایک پیغام تھا، نیب عدالت کو کہ نواز شریف کو ہر قیمت پر سزا دینی ہے۔ آپ اس فیصلے کے الفاظ دیکھیں جو استعمال کیے گئے۔ وہ ایسے ہی الفاظ تھے جو ہمارے سیاسی مخالفین ہمارے خلاف استعمال کرتے ہیں۔‘‘
اس سے قبل گزشتہ ہفتے احتساب عدالت میں پیشی کے بعد نواز شریف نے کہا تھا کہ جج صاحبان بغض سے بھرے بیٹھے ہیں اور ان کا غصہ ان کے الفاظ میں ظاہر ہو رہا ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جاری تفصیلی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ نواز شریف کی طرف سے جھوٹا بیانِ حلفی دیے جانے کے معاملے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اُن کی نا اہلی کے حوالے سے حقائق غیر متنازع تھے۔
نواز شریف کی تنقید ہی پر بظاہر گزشتہ ہفتے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ ہمارے صبر کی داد دیں کہ جو کچھ عدالت کے باہر ہو رہا ہے اس کے باوجود ہم کچھ نہیں کہہ رہے ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کسی کے کہنے سے ’’ہماری شان یا انصاف میں کمی نہیں آئے گی۔‘‘
اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ جس طرح عدلیہ پر تنقید کی جا رہی ہے یہ ’’کہاں کی حب الوطنی ہے۔‘‘
واضح رہے کہ عدالت میں مقدمات کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ نواز شریف نے عوامی مہم چلانے کا بھی فیصلہ کیا ہے اور وہ 19 نومبر کو ایبٹ آباد میں ایک جلسے سے خطاب کریں گے۔