امریکی ریاست اوکلاہاما کمشن کی ایڈوائزی کونسل کی رکن نائلہ خان کا کہنا ہے کہ ان کی ریسرچ کے مطابق اوکلا ہوما میں گھریلو تشدد کے اعداد و شمار بر صغیر کی خواتین کے ساتھ ہونے والے گھریلو تشدد جیسے ہی ہیں۔ اسی طرح پاکستان کی خواتین کی طرح اوکلاہوما کی خواتین سیاست اور سوشل ایکٹیو ازم، بالخصوص ووٹنگ میں کم حصہ لیتی ہیں۔ ۔اوکلاہوما کی مقننہ میں خواتین کی تعداد بہت کم ہے۔ ا وکلا ہوما کی خواتین کو مردوں کی نسبت کم تنخواہ دی جاتی ہے خواہ ان کی تعلیم اور قابلیت مردوں کے برابر ہی کیوں نہ ہو۔
نائلہ خان نے، جو یونیورسٹی آف اوکلا ہوما میں وزیٹنگ پروفیسر اور یونیورسٹی آف نبراسکا کی سابقہ پروفیسر اور چار کتابوں کی مصنفہ ہیں،وائس آف امریکہ اردوسروس کے پروگرام 'ہردم رواں ہے زندگی' میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ یہاں کی خواتین بہت زیادہ ترقی یافتہ ہیں ، بہت آزاد ہیں، انہیں بہت سی آزادیاں حاصل ہیں۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ انہیں بہت سے آئینی حقوق حاصل ہیں ، سیکیورٹی کی ضمانتیں موجود ہیں لیکن اگر گہری نظر سے جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ میں بھی خواتین اتنے ہی مسائل سے دوچار ہیں جتنی جنوبی ایشیا کی خواتین ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا کی طرح جہاں خواتین کو آئینی طور پر تمام حقوق حاصل ہیں مگر ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا اور ان کی ثقافت اور روایات انہیں ان مواقعوں کی فراہمی میں حائل ہوتی ہیں جن کی وہ اہلیت رکھتی ہیں۔ اسی طرح امریکہ میں بھی بائبل بیلٹ نامی کچھ روائت پسند اور قدامت پسندریاستیں،جن میں اوکلاہوما شامل ہے ا،یسی ہیں جہاں خواتین کو حاصل آئینی حقوق پر عمل درآمد کرانے پر بہت زیادہ زور نہیں دیا جاتا اور انہیں بھی جنوبی ایشیا کی خواتین کی طرح آگے بڑھنے کے مساوی مواقع نہیں مل پاتے۔
نائلہ خان بھارتی زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ شیخ محمد عبد اللہ مرحوم کی نواسی ہیں اور نہ صرف اپنے علاقے کی خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتی رہی ہیں اور آواز اٹھا رہی ہیں بلکہ وہ امریکی خواتین کے حقوق پر بھی کام کر رہی ہیں اور وہ پہلی کشمیری خاتون ہیں جو اوکلا ہوما کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن کی ایڈوائزری کونسل کی ایک رکن نامزد ہوئی ہیں۔
نائلہ علی خان کا کہنا تھا کہ ان کی شخصیت پر اپنے نانا شیخ عبداللہ مرحوم کا بہت اثر رہا اور اپنےوالدین اور خاندان کی طرف سے تعلیمی اور ادبی شعبے میں آگے بڑھنے پر ان کی بہت زیادہ حوصلہ افزائی کی گئی اور یہ سب اسی کا اثر تھا کہ جب انہیں امریکہ آنے کا موقع ملا تو انہوں نے اوکلاہوما یونورسٹی سے انگلش لٹریچر میں دوسرا ماسٹرز کیا، پی ایچ ڈی کی اور چار کتابیں لکھیں جن میں پہلی جنوبی ایشیا کے ادب کے بارے میں تھی ۔ لیکن جب انہیں یونیورسٹی آف نبراسکا کے ویمن اینڈ جینڈر اسٹڈیز کے شعبے میں تدریس کے دوران ویمن ان مسلم ورلڈ ، خواتین اور مسلم دنیا کے بارے میں کئی کورسز پڑھانے کا موقع ملا تو انہوں نے اپنے قلم کو کشمیر اور کشمیری خواتین پر مبذول کیا اور کشمیر اوراس کے اقتصادی، سیاسی اور معاشرتی شعبے میں کشمیری خواتین کے تاریخی اور موجودہ کردار پر دو کتابیں اور بہت سے مضامین تحریر کیے۔ پھر جب انہیں اوکلا ہوما کی گورنر نے خواتین کی حیثیت سے متعلق اوکلا ہوما کمیشن کی مشاورتی کونسل کی ایڈوائزری کونسل کا رکن نامزد کیا گیا تو انہوں نے اوکلاہوما کی خواتین کےمسائل پر بھی توجہ کی اور ان کے قانونی مسائل کے مشاورتی بورڈ میں بہت کام کیا۔