ایک ایسے وقت میں جب کہ واشنگٹن میں بڑی تعداد میں خواتین اپنے حقوق کے حق میں آواز اٹھانے کے لیے جمع ہیں، ان کے ساتھ یک جہتی کے لیے امریکہ کے کئی دوسرے شہروں سمیت دنیا بھر خواتین مظاہرے کر رہی ہیں۔
یہ مظاہرے صدر ڈونلڈٹرمپ کے اپنی چار سالہ مدت کے لیے عہدے سنبھالنے کے ایک روز بعد ہو رہے ہیں۔
عہدے داروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے لگ بھگ 30 گروپس کو صدارتی حلف برداری اور اس کے بعد مظاہروں کے اجازت نامے جاری کیے ہیں۔
جمعے کے دن ڈونلڈٹرمپ کی حلف برداری کے موقع پر بھی دارالحکومت واشنگٹن ڈی میں ہزاروں لوگوں نے مظاہرے کیے جو کئی مقامات پر تشدد میں بدل گئے۔ مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا۔ عمارتوں کے شیشے توڑے اور گاڑیوں کو نذر آتش کیا۔ پولیس نے انہیں منتشر کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا اور درجنوں مظاہرین کو گرفتار کیا گیا۔
واشنگٹن میں احتجاجی مظاہروں کی طرح خواتین کی حقوق کی تنظیموں اور شہریوں کے حقوق کے سرگرم کارکنوں اور ماحولیات کے لیے کام کرنے والوں نے صدر ٹرمپ کا اقتدار شروع ہونے کے ساتھ دنیا بھر میں مظاہرے کیے۔
یہ مظاہرے مسٹر ٹرمپ کے ان تبصروں کے خلاف ہیں جو وہ اپنی طویل انتخابی مہم اور مختلف موقعوں پر خواتین، تارکین وطن، مسلمانوں، نسلی گروپوں، ہم جنس پرستوں، ماحولیاتی تبدیلیوں کی روک تھام کے لیے کام کرنے والوں اور کئی دوسروں کے بارے میں کرتے رہے ہیں۔
آسٹریلیا میں ہزاروں مظاہرین نے سنڈنی میں امریکی قونصیلت تک مارچ کیا اور نئے صدر کے خلاف بقول ان کے نفرت پر مبنی بیانات پر احتجاج کیا اور انہیں جنس اور نسل کی بنیاد پر تعصب برتنے والی شخصیت قرار دیا۔
آسٹریلیا کے ٹیلی وژن کی معروف شخصیت اور مصنفہ ٹریسی سپائسر نے اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب عالمی تحریک کا حصہ ہیں اور سات براعظموں کے 600 سے زیادہ شہروں میں ہونے والے احتجاج میں ہماری آواز شامل ہے۔
نیروبی میں احتجاجی مارچ کی ایک منتظم ریچل مویکالی نے خبررساں ادارے روئیٹرز سے کہا کہ امریکی خواتین اس تحریک میں اکیلی نہیں ہیں۔ ہم سب ا ن کے ساتھ ہیں۔
نائیجیریا، جنوبی افریقہ ، ملاوی اور مڈغاسکر سمیت کئی دوسرے افریقی ملکوں میں بھی احتجاجی مظاہرے ترتیب دیے گیے ہیں۔
منتظمین کا کہنا ہے کہ انہوں نے انٹارکٹیکا سمیت دنیا کے ہر براعظم میں مظاہروں کا بندوبست کیا ہے اور دنیا کے ہر حصے کی خواتین اپنے حقوق کے دفاع کے لیے متحد اور یک زبان ہیں۔
لندن میں ہزاروں خواتین نے امریکی سفارت خانے کے سامنے مظاہرہ کیا ۔ایمسٹرڈم، ہیگ اور برلن سمیت یورپ کے کئی دوسرے شہروں میں بھی مظاہروں کی اطلاعات ہیں۔