رسائی کے لنکس

آریان خان کیس: اینٹی نارکوٹکس کا گواہ منحرف، 18 کروڑ کی رشوت کا الزام


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بالی وڈ اسٹار شاہ رخ خان کے بیٹے آریان خان کے خلاف منشیات کی برآمدگی کے ایک معاملے میں سنسنی خیز موڑ آگیا ہے۔ نارکوٹکس کنٹرول بیورو (این سی بی) کا ایک گواہ منحرف ہو گیا ہے اور اس نے مبینہ طور پر 18 کروڑ رشوت کا الزام عائد کیا ہے۔

پربھاکر سئیل نامی گواہ نے خصوصی عدالت میں جمع کرائے گئے ایک حلف نامے میں دعویٰ کیا ہے کہ وہ ایک نجی جاسوس کے پی گوساوی کا ذاتی محافظ ہے اور اس نے تین اکتوبر کو ایک شخص سیم ڈیسوزہ سے گوساوی کی ہونے والی گفتگو سنی تھی جس میں یہ کہا گیا تھا کہ 18 کروڑ میں معاملہ طے ہو گیا ہے اور معاملے کی تحقیقات کرنے والے این سی بی کے زونل ڈائریکٹر سمیر وانکھیڈے کو آٹھ کروڑ روپے دینے ہیں۔

گواہ کا دعویٰ ہے کہ اسے مذکورہ رقم دی گئی تھی جسے اس نے سیم ڈیسوزہ کے حوالے کر دیا۔

یاد رہے کہ کے پی گوساوی اس معاملے کا ایک اہم کردار ہے۔ آریان خان کی گرفتاری کے وقت ان کے ساتھ گوساوی کی ایک سیلفی وائرل ہوئی تھی۔

رپورٹس کے مطابق گوساوی ایک نجی جاسوس ہے اور اس کے خلاف کئی مجرمانہ مقدمات زیرِ سماعت ہیں اور اسے ممبئی کے ساحل پر کروز جہاز میں دیکھا گیا تھا۔

آریان کیس میں این سی بی نے پربھاکر سئیل اور گوساوی کو اپنا گواہ بنایا تھا اور جب سے گوساوی کا اس کیس میں نام سامنے آیا ہے وہ روپوش ہے جس کی تلاش کے لیے حکام نے 'لک آؤٹ' نوٹس جاری کر رکھا ہے۔

این سی بی کے گواہ پربھاکر سئیل نے الزام عائد کیا ہے کہ این سی بی نے کے پی گوساوی کو اغوا کر لیا ہے جس کی جان کو خطرہ ہے اسی لیے وہ عدالت میں حلف نامہ داخل کر رہے ہیں۔

رشوت کے الزام کی تردید

این سی بی نے پیر کو ممبئی کی خصوصی عدالت میں دو حلف نامے جمع کرائے ہیں۔ ایک حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ ان کا ایک گواہ پربھاکر سئیل اپنے بیان سے منحرف ہو گیا ہے۔

این سی بی نے پر بھاکر کے الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ رشوت کا الزام ایجنسی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے لگایا گیا ہے۔

این سی بی کے مطابق پربھاکر کی جانب سے جمع کرائے گئے حلف نامے کو ضروری کارروائی کے لیے این سی بی کے ڈائریکٹر جنرل کے پاس بھیج دیا گیا ہے۔

ایک سینئر تجزیہ کار شیبہ اسلم فہمی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ آریان خان کے خلاف کیس قانونی طور پر کمزور ہے۔ کیوں کہ ان سے کچھ بھی برآمد نہیں ہوا جب کہ ان کے دوست کے قبضے سے منشیات کی معمولی مقدار برآمد ہوئی ہے۔

انہوں نے اس شبہے کا اظہار کیا کہ مرکزی حکومت کی جانب سے ریاست مہاراشٹرا کی حکومت کو کمزور کرنے کے لیے مذکورہ معاملہ تیار کیا گیا ہے۔

ان کے بقول مہاراشٹرا کے وزیر اعلیٰ اودھو ٹھاکرے کے بیان پر غور کرنا چاہیے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ریاستی حکومت کو کمزور کرنے کے لیے این سی بی جیسی مرکزی ایجنسی کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

شیبہ اسلم کہتے ہیں ٹھاکرے کا یہ بیان این سی بی کے کردار پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ اس کے علاوہ اسی حکومت میں وزیر نواب ملک نے این سی بی کے خلاف کئی ثبوت پیش کیے ہیں اور ایجنسی کی نیت پر سوال اٹھایا ہے۔

شیبہ فہمی کے مطابق این سی بی کے عہدے دار سمیر وانکھیڈے نے اپنی جو تشخص بنایا ہے اس کے پیش نظر انہوں نے بظاہر ایک بڑی کارروائی کی تھی لیکن جس طرح سے گواہ اور تصاویر سامنے آئے ہیں ان سے لگتا ہے کہ سمیر نے اس معاملے میں اپنی امیج کا استعمال کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ برسوں میں غیر بی جے پی کی ریاستی حکومتوں کو کمزور کرنے یا انہیں ختم کرنے کی جو کوششیں کی گئیں اور جس طرح گورنرز کا استعمال کر کے اپوزیشن کی کئی حکومتیں گرائی گئیں اس کے پیش نظر ایسا لگتا ہے کہ آریان خان کا معاملہ منشیات کا کم اور سیاست کا زیادہ ہے۔

ان کے خیال میں جب سے ریاست مہاراشٹرا میں مخلوط حکومت قائم ہوئی ہے، مرکزی حکومت اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے۔

خیال رہے کہ بی جے پی اور مرکزی حکومت کی جانب سے طاقت یا پیسوں کی بنیاد پر مخالف یا غیر بی جے پی حکومتیں گرانے کے الزام کی تردید کی جاتی رہی ہے۔

معروف قانون دان اور نلسار لاء یونیورسٹی حیدرآباد کے وائس چانسلر پروفیسر فیضان مصطفیٰ نے کہا ہے کہ آریان خان کا معاملہ بہت مشکوک لگتا ہے۔ یہ ایک مجرمانہ معاملے کے بجائے ڈرامہ بنتا جا رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ملک کے قانونی نظام کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔

ان کے بقول اگر کسی نے جرم کیا ہے تو اسے سزا ملنی چاہیے۔ سلیبریٹی ہونا کوئی جرم نہیں۔ اگر کسی عام آدمی کے پاس سے بھی چند گرام منشیات مل جاتی تو بھی قانون کی پالیسی یہ ہے کہ اسے ضمانت دی جائے۔

ان کے مطابق جس طرح اس معاملے میں شواہد اکٹھے کرنا چاہیے تھے ایسے نہیں کیے گئے۔ کہا جا رہا ہے کہ ملزمان نے منشیات استعمال کی لیکن ان کا بلڈ ٹیسٹ نہیں ہوا اور طبی معائنہ نہیں کرایا گیا جب کہ استغاثہ کی کارروائی میں کئی جھول ہیں۔

پروفیسر فیضان مصطفیٰ نے اس معاملے پر اپنے پروگرام ’لیگل اویئرنیس ویب سیریز‘ کے تحت ایک ویڈیو بھی بنائی ہے۔

'قانون کی سخت تشریح کی جا رہی ہے'

پروفیسر فیضان نے آریان خان سے منشیات کی برآمدگی کے معاملے کو مشکوک قرار دیا اور کہا کہ یہ معاملہ کچھ نوجوانوں سے متعلق ہے اور ممکن ہے کہ وہ منشیات کی جانب بڑھ رہے ہوں۔ لیکن قانونی پالیسی یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو سماج میں واپس لایا جائے۔ نہ کہ انہیں سخت گیر مجرم اور منشیات کے کاروبار سے جوڑا جائے۔

ان کے بقول اس معاملے میں قانون کی بہت سخت تشریح کی جا رہی ہے۔ یہ کیس کمزور ہے اور یہ صرف پریشان کرنے والا کیس بن کر رہ جائے گا۔

ان کے مطابق انسداد منشیات کا قانون، این ڈی پی ایس ایکٹ سو گرام تک کی منشیات کے معاملے کو دوسری طرح دیکھتا ہے اور ایک کلو سے زیادہ کا معاملہ ہے تو وہ تجارتی معاملہ بن جاتا ہے اور قانون اسے دوسری طرح دیکھتا ہے۔

ریاستی وزیر نواب ملک کے الزامات

رپورٹس کے مطابق ریاست مہاراشٹرا کی کابینہ میں شامل وزیر نواب ملک اس کیس کی ابتدا سے ہی این سی بی پر مرکزی حکومت کے اشارے پر کام کرنے کا الزام لگاتے آئے ہیں۔

خبر رساں ادارے 'اے این آئی' کے مطابق نواب ملک نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انہیں (بی جے پی کو) وانکھیڈے کی شکل میں ایک کٹھ پتلی مل گئی ہے جب کہ این سی بی نے کہا ہے کہ وانکھیڈے ایک قابل اور ایماندار افسر ہیں اور انہیں بدنام کیا جا رہا ہے۔

وانکھیڈے کے مطابق جب سے نواب ملک کے داماد سمیر خان کو منشیات کے ایک معاملے میں گرفتار کیا گیا تھا اسی وقت سے وہ این سی بی کے خلاف ہیں۔

خیال رہے کہ سمیر خان منشیات کے ایک معاملے میں آٹھ ماہ جیل میں رہ چکے ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG