پاکستانی صحافی خاتون جگنو محسن کا کہناہے کہ پاکستانی صرف امن اور روزگار چاہتے ہیں۔ انہیں کسی ملک پر قبضہ کرنے یا سدا کی دشمنیاں پالنے سے سروکار نہیں ہے۔
ان کےخیالات سے شاید ہی کسی پاکستانی کو اختلاف ہو۔ پاکستانیوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ ان کا امن ہمسایہ ملک افغانستان میں امن سے جڑا ہے۔
افغانستان میں امن اور استحکام قائم کرنے کے لیے امریکہ عسکریت پسندوں کے خلاف طاقت کا استعمال اور مذاکرات کی جس پالیسی پر عمل کررہاہے ، اس سے پاکستان سمیت امریکہ کے کئی حلقے بھی اتفاق نہیں کرتے۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر ضمیر اکرم کہتے ہیں کہ امریکہ کی یہ پالیسی مثبت نتائج کی ضمانت نہیں دے سکتی۔ ان کا کہناہے کہ امریکہ ایک طرف افغانستان میں بم برسا رہا ہے اور دوسری طرف مذاکرات کی بات بھی کررہا ہے۔ جہاں تک مجھے پشتون ثقافت کا علم ہے، یہ طریقہ کامیاب نہیں ہوگا۔
واشنگٹن کے ایک تحقیقی ادارے امیریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کے احمد ماجدیار اس رائے سے بڑی حد تک متفق ہیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ امریکہ سمیت بین الاقوامی برادری مذاکرات کے لیے ہتھیارنہیں پھینک سکتی۔وہ کہتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کرنا ممکن نہیں ہے۔ صدر کرزئی کی حکومت ماضی میں یہ قدم اٹھا چکی ہے لیکن طالبان نے ان کی پیشکس مسترد کردی۔ ان کا کہناتھا کہ گزشتہ کچھ برسوں کے دوران امریکہ اور افغان حکومت نے طالبان سے مذاکرات کی کوششیں کی ہیں ، لیکن بدقسمتی سے طالبان نے اس میں کوئی دلچسپی ظاہرنہیں کی۔
واشنگٹن میں فاؤنڈیشن فار دا ڈیفنس آف ڈیموکریسیز کے ڈاکٹر سبیچن گورکا کے مطابق افغانستان میں کرزئی حکومت کی رٹ اور بین الاقوامی افواج کو چیلنج کرنے میں طالبان کے علاوہ مقامی جنگجو سردار اور منشیات کے کاروبار میں ملوث افراد بھی شامل ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ طالبان کسی ایک ایک متحد گروہ کا نام نہیں ہے۔ اسی لیے امریکہ کچھ عناصر کے خلاف طاقت کے استعمال اور کچھ کے ساتھ مذاکرات کی راہ اپنائے گا۔
ان کا کہناہے کہ افغانستان میں کمانڈروں کو یہ دیکھنا ہوگا کہ طالبان کے کس گروہ کے ساتھ مفاہمت ممکن ہے اور کس کے ساتھ نہیں۔ جن کے ساتھ مفاہمت کا امکان موجودہے، ان میں سے زیادہ تر کو امریکہ، کابل اور اتحادی افواج یہ یقین دلائیں گی کہ ایک مستحکم ملک میں انہیں بھی کردار دیا جائے گا۔
پاک افغان سرحدی علاقے میں موجود حقانی گروپ کے ساتھ حالیہ کچھ عرصے میں امریکہ کی جانب سے اپنائی جانے والی دوہری حکمت عملی کے بارے میں احمد ماجدیار کا کہنا ہے اس طرح امریکہ حقانی گروپ کی صلاحیتوں کو تو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہو سکتا ہے لیکن اسے مذاکرات کی میز پر نہیں لاسکتا۔
احمد ماجد یار یہ بھی کہتے ہیں کہ طالبان کے سب سے بڑے دھڑے کے قائد ملا عمر اور ان کی حامی افغانستان کے آئین کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے ۔ اس لیے وہ مذاکرات کا حصہ بننے پربھی آمادہ نہیں ہوں گے۔
ان کا کہناہے کہ طالبان کے علاوہ دیگر گروہ صرف اس صورت میں سیاسی تصفیے پر غور کرسکتے ہیں جب انہیں مرکزی حکومت کی طاقت اور امریکہ کی اس کے ساتھ کمٹمنٹ پر بھروسہ ہو۔
احمد ماجدیار کے مطابق اگر افغانستان میں زیادہ تر فریق امریکہ کی مدد سے سیاسی تصفیے کا حصہ بن جائیں تو وہ لڑائی پر اصرار کرنے والے طالبان گروہوں کے خلاف ایک ڈھال ثابت ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود افغانستان میں دہشت گردی کے مکمل خاتمے کی آئندہ کئی برسوں تک توقع نہیں کی جا سکتی۔ اور ڈاکٹر گورکا کہتے ہیں کہ اسی لیے افغانستان میں جمہوری اور سیکیورٹی اداروں کو مضبوط بنانا ضروری ہوگا جس میں حکومت کی مدد کے لیے امریکہ کو 2014ءکے بعد بھی کئی برس تک افغانستان میں محدود سطح پر موجود رہنا پڑے گا۔