رسائی کے لنکس

بن لادن کی ہلاکت پر پاکستانی اخبارات کا ردعمل


بن لادن کی ہلاکت پر پاکستانی اخبارات کا ردعمل
بن لادن کی ہلاکت پر پاکستانی اخبارات کا ردعمل

ذرائع ابلاغ پر نشر ہونے والے تبصروں میں اس تمام منصوبے میں پاکستانی افواج کے کردار کی نوعیت زیر بحث بنی ہوئی ہے۔ مبصرین سوال کر رہے ہیں کہ آیا پاکستانی سکیورٹی فورسز کو اعتماد میں لیے بغیر امریکہ کے چار ہیلی کاپٹر پاکستان کی حدود میں داخل ہو کر ایک اہم فوجی چھاؤنی میں اس قسم کی کارروائی کر سکتے ہیں۔

دنیا کے انتہائی مطلوب شخص کی پاکستانی فوج کی تنصیبات کے بیچ ایک قلعہ نما گھر میں روپوشی نے دنیا کو حیرت زدہ کر دیا، جس کے بعد پاکستانی خفیہ اداروں، بالخصوص آئی ایس آئی، کی قابلیت اور اُن کا کردار مقامی اور بین الاقوامی سطح پر بھی موضوع بحث بنا ہوا ہے۔

ہیلی کاپٹروں پرسوار امریکی سپیشل فورسز کی ایک مختصر ٹیم اتوار اور پیر کی درمیانی شب پہاڑی شہر ایبٹ آباد کے علاقے بلال ٹاؤن میں القاعدہ کے رہنماء اسامہ بن لادن کی کمین گاہ میں اُتری اور تقریباً 40 منٹ کی کارروائی میں بن لادن کو ہلاک کرنے کے بعد اُس کی لاش اپنے ساتھ لے کر لوٹ گئی۔

اُسامہ کی پناہ گاہ فوجی افسران کی بنیادی تربیت گاہ ’پاکستان ملٹری اکیڈمی‘ کاکول سے انتہائی قریب واقع تھی، اور ملک میں سلامتی کے موجودہ حالات میں فوجی تنصیبات کے گردونواح میں لوگوں کی نقل و حرکت اور مجموعی صورت حال پر گہری نظر رکھنا سکیورٹی ایجنسیوں کی اولین ذمہ داری تصور کی جاتی ہے۔

مبصرین اور ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ اس پس منظر میں اُسامہ بن لادن کے خلاف ایک ڈرامائی کارروائی نے بے شمار سوالات کو جنم دیا ہے جن کے جوابات پاکستان کی سکیورٹی فورسز ہی دے سکتی ہیں۔

مقامی انگریزی اخبارات کے مطابق اسامہ کی ملک میں موجودگی سے بظاہر لاعلمی پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کی ایک سنگین ناکامی ہے۔

صدر آصف علی زرداری نے امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں بظاہر ان قیاس آرایوں کے جواب میں کہا ہے کہ اسامہ بن لادن کے ٹھکانے کی نشان دہی القاعدہ کے رہنما کے اُس پیغام رساں کی وجہ سے ہوئی جس کے بارے میں پاکستانی اداروں نے امریکہ کو معلومات فراہم کی تھیں۔

بن لادن کی پناہ گاہ کے بارے میں لا علمی کے علاوہ جس موضوع پر بات کی جا رہی ہے وہ پاکستان کی حدود میں امریکی فورسز کا آپریشن اور مبینہ طور پر اس میں پاکستان کو شامل نا کرنا ہے۔

امریکی عہدے داروں کا اصرار ہے کہ رات کی تاریکی میں کی گئی کارروائی میں صرف اور صرف امریکی شریک تھے۔ خبررساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ‘ پریس کے مطابق یہ کارروائی امریکی بحریہ کی خصوصی فورسز ’نیوی سیلز‘ کی ’ٹیم سکس‘ نے کی۔

ذرائع ابلاغ پر نشر ہونے والے تبصروں میں اس تمام منصوبے میں پاکستانی افواج کے کردار کی نوعیت زیر بحث بنی ہوئی ہے۔ مبصرین سوال کر رہے ہیں کہ آیا پاکستانی سکیورٹی فورسز کو اعتماد میں لیے بغیر امریکہ کے چار ہیلی کاپٹر پاکستان کی حدود میں داخل ہو کر ایک اہم فوجی چھاؤنی میں اس قسم کی کارروائی کر سکتے ہیں۔

جنگی اُمور کے ماہرین کے مطابق محض چند اعلیٰ فوجی کمانڈروں کو اعتماد میں لینے کے بعد اتنا حساس آپریشن نہیں کیا جا سکتا ہے اور یقیناً نچلی سطح پر بھی اس بارے میں احکامات جاری کیے گئے ہوں گے۔

اس غیر معمولی واقعے کے حقائق عنقریب منظر عام پر آنے کے امکانات انتہائی محدود ہیں لیکن مبصرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اسامہ بن لادن کی پاکستان میں ہلاکت ملک کے لیے مستقبل میں کٹھن صورت حال کا پیش خیمہ بنے گی۔

بن لادن کی ہلاکت پر پاکستانی اخبارات کا ردعمل
بن لادن کی ہلاکت پر پاکستانی اخبارات کا ردعمل

شاید اسی وجہ سے پاکستان کے ایک بڑے انگریزی روزنامے ’ایکسپریس ٹربیون‘ کی منگل کے روز شہ سرخی کا اردو ترجمہ کچھ یوں بنتا ہے، ”موت کے بعد بھی اسامہ پاکستان کے لیے ایک ڈراؤنا خواب۔“ روزنامہ ڈان کی سوالیہ انداز میں شہ سرخی تھی ” کیا اسامہ کو امریکی فوجیوں نے ہلاک یا خود اُن کے محافظ نے؟“ جب کہ روزنامہ ’دی نیوز‘ کی مختصر شہ سرخی میں کافیہ اور ردیف کا خیال رکھا گیا ہے، ”Obama gets Osama“۔

اردو روزنامہ جنگ کی شہ سرخی ”ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن، اسامہ بن لادن ہلاک، لاش سمندر برد‘ رہی، جب کہ اخبار نوائے وقت کی شہ سرخی تھی ”ایبٹ آباد: امریکی فوج کا آپریشن، اسامہ بن لادن بیٹے سمیت جان بحق۔“

XS
SM
MD
LG