واشنگٹن —
اسرائیل کے وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو نے اسرائیلی قوم کو یقین دلایا ہے کہ وہ ایران اور مشرقِ وسطیٰ میں قیام امن کے لیے فلسطین کے ساتھ مذاکرات سے متعلق اپنے ماضی کے موقف پر قائم ہیں۔
اتوار کی شب ایک اسرائیلی یونی ورسٹی میں منعقدہ تقریب سے خطاب میں اسرائیلی وزیرِاعظم نے اپنا بیشتر وقت خارجہ پالیسی سے متعلق امور کی وضاحت پر صرف کیا۔
خیال رہے کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے گزشتہ ہفتے کیے جانے والے خطاب کے بعد اسرائیلی وزیرِاعظم کی اندرونِ ملک یہ پہلی تقریر تھی۔
اپنے خطاب میں وزیرِاعظم نیتن یاہو نے کہا کہ عالمی برادری کو ایران پر اقتصادی پابندیاں مزید سخت کرنی چاہئیں تاکہ اسے اپنا مبینہ جوہری پروگرام مکمل طور پر ختم کرنے پر مجبور کیا جاسکے۔
اسرائیلی وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ ان کا ملک ایران کے ساتھ تنازعات کا سفارتی حل تلاش کرنے پر تیار ہے لیکن اس کا لازمی نتیجہ ایران کی جوہری ہتھیار تیارکرنے کی صلاحیت کا مکمل خاتمہ ہونا چاہیے۔
ایران کا موقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام سراسر پرامن مقاصد کے لیے ہے لیکن امریکہ اور اسرائیل کو شبہ ہے کہ تہران حکومت خفیہ طور پر جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ایرانی حکومت نے عالمی برادری کو اس پر عائد اقتصادی پابندیوں میں نرمی کرنے کی صورت میں اپنے جوہری پروگرام کو عالمی نگرانی میں دینے کی پیش کش کی ہے تاکہ اس کے عزائم کے بارے میں مغربی ممالک کے خدشات کا ازالہ ہوسکے۔
ایران کے نئے صدر حسن روحانی نے دو ہفتے قبل جنرل اسمبلی کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ ان کے ملک کی سلامتی اور دفاعی حکمتِ عملی میں جوہری ہتھیاروں کا کوئی کردار سرے سے موجود نہیں۔
ایرانی صدر نے عالمی رہنماؤں پر زور دیا تھا کہ وہ ایران کے جوہری تنازع پر جنگ کی آگ بھڑکانے کے شوقین گروہوں کی کوششوں کو ناکام بنائیں۔
لیکن ایران کے اس واضح موقف کہ باوجود اسرائیلی وزیرِاعظم نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے ہونے والے اپنے دورہ امریکہ کے دوران میں ایران کے عزائم پر سوال اٹھائے تھے اور ایرانی صدر کو "بھیڑ کی کھال میں بھیڑیا" قرار دیا تھا۔
اتوار کی شب ایک اسرائیلی یونی ورسٹی میں منعقدہ تقریب سے خطاب میں اسرائیلی وزیرِاعظم نے اپنا بیشتر وقت خارجہ پالیسی سے متعلق امور کی وضاحت پر صرف کیا۔
خیال رہے کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے گزشتہ ہفتے کیے جانے والے خطاب کے بعد اسرائیلی وزیرِاعظم کی اندرونِ ملک یہ پہلی تقریر تھی۔
اپنے خطاب میں وزیرِاعظم نیتن یاہو نے کہا کہ عالمی برادری کو ایران پر اقتصادی پابندیاں مزید سخت کرنی چاہئیں تاکہ اسے اپنا مبینہ جوہری پروگرام مکمل طور پر ختم کرنے پر مجبور کیا جاسکے۔
اسرائیلی وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ ان کا ملک ایران کے ساتھ تنازعات کا سفارتی حل تلاش کرنے پر تیار ہے لیکن اس کا لازمی نتیجہ ایران کی جوہری ہتھیار تیارکرنے کی صلاحیت کا مکمل خاتمہ ہونا چاہیے۔
ایران کا موقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام سراسر پرامن مقاصد کے لیے ہے لیکن امریکہ اور اسرائیل کو شبہ ہے کہ تہران حکومت خفیہ طور پر جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ایرانی حکومت نے عالمی برادری کو اس پر عائد اقتصادی پابندیوں میں نرمی کرنے کی صورت میں اپنے جوہری پروگرام کو عالمی نگرانی میں دینے کی پیش کش کی ہے تاکہ اس کے عزائم کے بارے میں مغربی ممالک کے خدشات کا ازالہ ہوسکے۔
ایران کے نئے صدر حسن روحانی نے دو ہفتے قبل جنرل اسمبلی کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ ان کے ملک کی سلامتی اور دفاعی حکمتِ عملی میں جوہری ہتھیاروں کا کوئی کردار سرے سے موجود نہیں۔
ایرانی صدر نے عالمی رہنماؤں پر زور دیا تھا کہ وہ ایران کے جوہری تنازع پر جنگ کی آگ بھڑکانے کے شوقین گروہوں کی کوششوں کو ناکام بنائیں۔
لیکن ایران کے اس واضح موقف کہ باوجود اسرائیلی وزیرِاعظم نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے ہونے والے اپنے دورہ امریکہ کے دوران میں ایران کے عزائم پر سوال اٹھائے تھے اور ایرانی صدر کو "بھیڑ کی کھال میں بھیڑیا" قرار دیا تھا۔