رسائی کے لنکس

نیتن یاہو کا رفح پر حملے کا عزم، جنگ بندی مذاکرات سے دست بردار ہونے کا اعلان


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو غزہ میں جنگ بندی سے متعلق جاری مذاکرات سے دست بردار ہو گئے ہیں اور انہوں نے ایک بار پھر اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ غزہ کے جنوبی شہر رفح میں حماس کے عسکریت پسندوں پر حملہ جاری رکھیں گے۔

عالمی رہنماؤں کی جانب سے رفح پر حملہ نہ کرنے کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے باوجود نیتن یاہو نے میسجنگ ایپ ٹیلی گرام پر اپنے اکاؤنٹ پر کہا کہ ہم مکمل فتح تک لڑیں گے جس کے لیے رفح میں ایک طاقتور کارروائی بھی شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ شہری آبادی کو جنگ کے علاقوں کو چھوڑنے کے لیے اجازت دی جائے گی۔

تاہم نیتن یاہو نے اس بارے میں کوئی اشارہ نہیں دیا کہ وہ اسرائیلی افواج کو کب رفح پر حملہ کرنے کا حکم دے سکتے ہیں۔ نہ ہی انہوں نے ایسا کوئی اشارہ دیا کہ علاقے میں جنگ سے پناہ لینے والے لوگ کہاں جائیں گے۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم کا رفح میں تازہ ترین کارروائی کا دفاع
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:36 0:00

فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے ساتھ جنگ بندی کے مذاکرات سے الگ ہونے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ حماس نے جنگ کو روکنے کے "مضحکہ خیز مطالبات" پیش کیے تھے جن میں ان کی طرف سے کوئی تبدیل نہیں لائی گئی۔

نیتن یاہو کے دفتر کے مطابق حماس نے قاہرہ مذاکرات میں چار ماہ سے جاری جنگ کو روکنے اور غزہ میں عسکریت پسندوں کے زیرِ حراست 100 یا اس سے زیادہ یرغمالوں کو رہا کرنے کے لیے کوئی نئی پیشکش نہیں کی تھی۔

خیال رہے کہ حماس کا اسرائیل سے مطالبہ ہے کہ وہ غزہ سے اپنی تمام فوجیں واپس بلائے اور انہیں غزہ پر حکمرانی جاری رکھنے کی اجازت دے۔

اسرائیل کا مذاکرات سے نکلنے کا مؤقف

نیتن یاہو کے دفتر نے کہا کہ "حماس کے مؤقف میں تبدیلی سے مذاکرات میں آگے بڑھنا ممکن ہو جائے گا۔

حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے قاہرہ مذاکرات کے اگلے اجلاس میں مذاکرات کاروں کو نہ بھیجنا ایک مکروہ فیصلہ ہے۔

گروپ نے کہا کہ یہ اقدام حماس کی سرنگوں میں باقی یرغمالوں کے لیے "موت کی سزا کے برابر ہے۔"

گروپ کا یہ بیان جنگ کے بارے میں اسرائیل میں بڑھتے ہوئے اندرونی اختلاف کو ظاہر کرتا ہے۔

رفح کے پناہ گزین کیا سوچ رہے ہیں؟

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ رفح میں چھپے حماس کے جنگجوؤں کی چار بٹالین پر حملہ کرنا چاہتی ہے۔

دوسری طرف فلسطینی شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل کے ٹینک بھیجنے کے وقت سے پہلے دن گن رہے ہیں۔

غزہ کے ایک تاجر سید جابر نے، جو اپنے خاندان کے ساتھ رفح میں پناہ لیے ہوئے ہیں، ایک چیٹ ایپ کے ذریعے کہا، "ہمیں امید ہے کہ وہ ایسا نہیں کریں گے، لیکن انہیں کون روک سکتا ہے؟"

غزہ اور مغربی کنارے کے لیے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے نمائندے رچرڈ پیپرکورن نے کہا کہ رفح پر حملہ "ایک ناقابلِ تصور تباہی ہو گا اور اس سے اتنی انسانی تباہی مزید پھیلے گی جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔"

رفح پر حملے کی عالمی مخالفت

امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے رفح حملے کی مخالفت کا اظہار کیا اور زور دیا ہے کہ جب تک عام شہروں کی حفاظت کو یقینی نہیں بنایا جاتا ایسا اقدام نہیں اٹھایا جانا چاہیے۔

فرانسیسی صدر ایمانوئل میخواں نے بھی بدھ کے روز نیتن یاہو کے ساتھ فون کال میں اسی طرح کے خدشات کا اظہار کیا۔

جرمن وزیرِ خارجہ اینالینا بیرباک نے نیتن یاہو کے ساتھ بات چیت سے قبل کہا تھا کہ رفح میں ایسے لوگ جن کے پاس کہیں اور جانے کی کوئی جگہ نہیں ہے اور وہ ہوا میں غائب نہیں ہو سکتے۔

غزہ میں جنگ سے ہلاکتوں میں اضافہ

غزہ میں حماس کے زیرِ انتظام وزارت صحت کے مطابق گزشتہ سال اکتوبر سے جاری اسرائیلی حملوں میں کم از کم 28,576 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔

اس تعداد میں گزشتہ روز کی 103 ہلاکتیں بھی شامل ہیں، جنگ میں اب تک 68,291 زخمی بھی ہوئے ہیں۔

اس جنگ کا آغاز پچھلے سال سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے سے ہوا تھا جس میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1200 افراد مارے گئے تھے۔

حماس کے جنگجو تقریباً 240 افراد کو یرغمال بنا کر غزہ لے گئے تھے جن میں سے 100 سے زائد کو گزشتہ برس ایک ہفتے کی جنگ بندی کے دوران رہا کر دیا گیا تھا۔

کئی یرغمالی جنگ کے دوران ہلاک ہو گئے ہیں اور اب بھی کئی حماس کی قید میں ہیں۔

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں اداروں اے پی، اے ایف پی اور رائٹرز سے لی گئی ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG