نیدر لینڈز کی ایک عدالت نے ایک اسلام مخالف قانون ساز گریٹ وائلڈرز کو نفرت پر مبنی تقریر کرنے پر مجرم ٹہرایا ہے۔ جج کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ قانون ساز کی تقریر سیاسی چھاپ پر مبنی لفظوں کا گورکھ دھندہ اور اظہار کی آزادی کے لیے ایک بڑا نقصان تھی۔
ججوں کے پینل کے سربراہ ہینڈرک سٹین ہوئز نے جمعے کے روز اپنے فیصلے میں کہا کہ عدالت انہیں کوئی سزا نہیں دے گی کیونکہ انہیں مجرم ٹھہرانا ہی جمہوری طورپر منتخب ایک قانون ساز کے لیے کا فی سزا ہے۔
پراسیکیوٹرز نے جج سے کہا تھا کہ ملزم کو 5300 ڈالر جرمانہ کیا جائے۔
پراسیکیوٹرز کا کہنا ہے کہ وائلڈرز نے خصوصی طور پر مراکش کے باشندوں کو نشانہ بنا کر تقریر کی آزادی کی حدود عبور کر چکے ہیں۔
اپنی ایک ٹویٹ میں وائلڈرز نے کہا ہے کہ تعصب اور مراکش کے باشندوں کے خلاف نفرت بھڑکانے کا مجرم قرار دینا غیر دانش مندانہ ہے اور یہ کہ جن تین ججوں نے یہ فیصلہ لکھا ہے وہ ان کی انتہائی دائیں بازو کی فریڈم پارٹی کے مقبولیت کو ناپسند کرتے ہیں۔
انہوں نے خود پر عائد کیے جانے والے الزامات مسترد کرتے ہوئے اصرار کیا کہ وہ نیدرلینڈز کے ایک معاشرتی مسئلہ کی نشاندہی کرکے ایک سیاسی راہنما کے طور پر اپنا فرض نبھا رہے تھے۔
وائلڈرز کو مجرم ٹہرائے جانے سے پہلے ججوں کے پینل کی سربراہی کرنے والے جج سٹین ہوئز نے کہا کہ آزادی اظہار کی سماعت نہیں کی جا رہی جیسا کہ وائلڈرز نے اپنے مقدمے کی سماعت کے دوران دعویٰ کیا ہے۔
وائلڈرز سماعت کے وقت عدالت میں موجود نہیں تھے۔ یہ سماعت ایک ایسے وقت میں ہوئی جب قومی انتخابات میں تین مہینے باقی رہ گئے ہیں۔
رائے عامہ کے جائزوں میں فریڈم پارٹی کو انتخابات کے حوالے میں معمولی برتری حاصل ہے اور اس مقدمے کی سماعت کے دوران اس کی مقبولیت بڑھی ہے۔
اس سے قبل 2011 میں اسلام کے خلاف نفرت پر مبنی ایک تقریر کی سماعت میں عدالت نے انہیں بری کر دیا تھا۔