رسائی کے لنکس

دہلی فسادات منظم سازش کے تحت کرائے گئے: اقلیتی کمیشن


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

دہلی اقلیتی کمیشن کے ایک وفد نے شمال مشرقی دہلی کے فساد زدہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد الزام لگایا ہے کہ یہ فساد منظم سازش کا نتیجہ تھے۔ کمیشن کے مطابق اس سازش پر عمل درآمد کے لیے باہر سے لوگوں کو بلایا گیا۔

کمیشن کا یہ بھی الزام ہے کہ دو دن تک فسادیوں کو پوری آزادی حاصل رہی اور پولیس یا تو موجود نہیں تھی اور اگر کچھ تھی بھی تو خاموش تماشائی بنی رہی۔

کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کی قیادت میں کمیشن کے ایک وفد نے جمعرات کو متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور وہاں کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ لوگوں سے بات چیت بھی کی۔

بعدازاں ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ یہ فساد یکطرفہ تھا اور منظم سازش کے تحت اسے ہوا دی گئی۔ متاثرین نے وفد کو بتایا کہ حملہ آوروں کو باہر سے بلایا گیا تھا۔ مقامی ہندوؤں نے مسلمانوں کی دکانوں اور مکانوں کی نشاندہی کی۔ جس کے بعد بلوائیوں نے چن چن کر مسلمانوں کی املاک کو ہدف بنایا۔ یہ سب کچھ مقامی افراد کی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھا۔

ڈاکٹر خان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "ہمارے پاس اس کا ثبوت ہے کہ ڈیڑھ دو ہزار لوگ باہر سے آئے تھے۔ انہوں نے شیو وہار میں سب سے زیادہ تباہی مچائی۔ وہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔"

ان کے بقول "فسادیوں نے وہاں دو اسکولوں پر قبضہ کیا اور دو روز تک وہاں مقیم رہے۔ وہ باہر جاتے اور مسلمانوں کی املاک کو تباہ کر کے پھر وہیں آ جاتے۔ انہوں نے ایک اسکول کی چھت پر ایک بہت بڑی غلیل نصب کی تھی جس کی مدد سے وہ سڑک کے پار پیٹرول بم وغیرہ پھینکتے رہے۔"

ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کا کہنا تھا کہ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ متاثرہ علاقوں میں 24 اور 25 فروری کو پولیس بہت کم تعداد میں موجود تھی۔ اس نے متاثرین کی کوئی مدد نہیں کی بلکہ اس کے برعکس فسادیوں کو تباہی مچانے کی کھلی چھوٹ دی گئی۔

ڈاکٹر خان کے بقول بلوائیوں کو مکانات نذر آتش کرنے اور دھماکے کرنے تک کی اجازت دی گئی، فسادیوں نے گیس سلنڈروں کے دھماکے کیے۔ اُن کا کہنا تھا کہ دو روز تک مسلمانوں کے قتل عام اور اُن کی املاک کو نقصان پہنچانے کی اجازت دی گئی۔

اُن کے بقول حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 49 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ لیکن ابھی بھی بہت سی لاشیں اسپتالوں میں پڑی ہیں۔ بہت سے لوگ لاپتا بھی ہیں۔

ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کا کہنا تھا کہ پولیس 26 فروری کے بعد متحرک ہوئی اور اس کے بعد بتدریج حالات میں کچھ بہتری آئی۔ اُنہوں نے سوال اُٹھایا کہ یہ کیسے فسادات تھے جس میں ہندوؤں کی املاک کو کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔

دریں اثنا جمعرات کو بھی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں دہلی فساد کا معاملہ زیرِ بحث لانے کی کوشش کی گئی۔ لوک سبھا میں کانگریس کے اراکین نے شور مچایا جس کے بعد اسپیکر نے کانگریس کے سات اراکین کا ایک ہفتے تک لوک سبھا میں داخلہ بند کر دیا۔ کانگریس نے اس اقدام کی مذمت کی ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG