سن 1947 کی ہجرت کے موقع پر کئی دردناک کہانیوں نے جنم لیا، ان کہانیوں کی یادیں اب بھی زندہ ہیں۔ یہ کہانیاں اتنی پراثر تھیں کہ سرحد کے دونوں جانب ان پر نہ صرف شاہکار افسانے اور ناول لکھے گئے بلکہ فلموں کی بھی کوئی کمی نہیں۔
ایسا ہی ایک ناول اردو ادب کی جانی پہچانی مصنفہ امرتا پریتم نے ’پنجر‘ کے نام سے 1950ء میں لکھا تھا۔ اسی کہانی سے متاثر ہو کر آمنہ مفتی نے ایک ڈرامہ سیریل ’گھگھی ‘لکھا ہے۔
’گھگی ، فاختہ کو کہتے ہیں۔ یہ کہانی ان فاختاؤں کے نام ہے جنہیں وسائل کے بھوکے لوگوں نے بھون کھایا۔ جس آگ پر انہیں بھونا گیا اس کا ایندھن کبھی قوم، کبھی مذہب اور کبھی زبان بنی۔ مگر فاختہ کے شکار کا سبب اس کے ماس کا ذائقہ چکھنے اور اس کی ہڈیوں کو چبانے کے سوا کچھ نہ تھا۔ چونکہ فاختہ سوال نہیں کر سکتی اس لئے یہ کھیل لکھا گیا۔ اور اس کا خیال ان سب لکھاریوں کی تحریر سے ماخوذ ہے جنہوں نے امن کے لئے جنگ کی کہانیاں لکھیں۔ ‘
یہ وہ مکالمے ہیں جوڈرامہ سیریل ’گھگھی‘ شروع ہوتے وقت غالباً ہر قسط میں دہرائے جاتے ہیں۔ ان الفاظ سے ایک بات تو بالکل واضح ہے کہ ’گھگھی‘ کی کہانی ایسی خواتین کے گرد گھومتی ہے جو ازل سے اب تک، جھگڑا کسی بھی وجہ سے ہو، لیکن قربان خواتین ہی ہوتی آئی ہیں۔
نجی ٹی وی چینل ’ٹی وی ون ‘ کا سیریل ’گھگھی‘ دیکھنے والی ایک ’ورکنگ لیڈی‘ لبنیٰ علی نے وائس آف امریکہ کو بتایا ’حوا کی بدنصیب بیٹیوں کا مرثیہ ہے ۔۔’گھگھی‘۔ ایک ایسی سچائی جو مردوں کو شاید تلخ لگے لیکن حقیقت تو یہی ہے۔ یہ کہانی ماضی کا آئینہ نہیں آج کا سچ ہے۔ آج بھی کہیں ’زینب ‘تو کہیں ’عاصمہ‘ مردوں کے ظلم و جبر کا شکار ہو رہی ہیں۔ اسی زینب اور اسی عاصمہ کے روپ میں ’گھگھی‘ آج بھی اسی حال میں ہے۔۔۔اس کی قسمت تو کبھی بھی نہیں بدلی۔‘
پنجاب کے کھیت کھلیان، ہریالی اور گائوں دیہات کے سادہ طرز زندگی میں ڈوبی ’گھگھی‘ آمنہ مفتی کے قلم کا نتیجہ ہے۔ بقول آمنہ انہوں نے یہ کہانی 1950 میں شائع ہونے والے امریتا پریتم کے ناول ’پنجر‘ سے متاثر ہو کر لکھی ہے ۔
سیریل کے مرکزی کرداروں میں عدنان صدیقی، عمار خان و دیگر شامل ہیں جبکہ ہدایات اقبال حسین نے دی ہیں۔
اسے پاکستان کا نجی ٹی وی چینل’ٹی وی ون‘ پیش کر رہا ہے۔ تیس اقساط پر مشتمل ڈرامہ سیریل کی شوٹنگ پنجاب کے مختلف علاقوں میں مسلسل سات مہینوں تک کی گئی۔
سیریل کی کہانی ایک ہندو لڑکی کے گرد گھومتی ہے جس کی منگنی اپنی ہی کمیونٹی کے ایک ڈاکٹرسے ہوئی تھی لیکن اگست 1946 میں امرتسر کا ایک نوجوان خاندانی جھگڑے کا حساب چکانے کے لئے اس لڑکی کو اغوا کر لیتا ہے۔
’گھگھی‘ میں مرکزی کردار کا نام تبدیل کرکے نرملا رکھا گیا ہےجبکہ عدنان صدیقی ڈرامے میں رشید کے رول میں نظر آ رہے ہیں۔
عدنان صدیقی نےگزشتہ ہفتے سیریل کے بارے میں میڈیا نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ ’گگھی‘ کی کہانی میں چھپا دکھ، پاکستان اور بھارت کا ساجھا دکھ ہے۔ آج کل کے دور میں ایسے حساس موضوع پر ڈرامہ پیش کرنا آسان نہیں تھا کیونکہ پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں میں چینلز کے لئے ٹی آر پی ہی سب کچھ ہے۔
عدنا ن صدیقی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ڈرامے کے کردار میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لئے انہوں نے نہ صرف گھڑ سواری سیکھی بلکہ گڑ بنانا بھی سیکھا۔ ایسے علاقے میں بھی شوٹنگ کی جہاں سے پاک بھارت سرحد صرف آدھے گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے۔ یہاں سے شام کے وقت ہم سرحد کے اس پار جلتی روشنیوں کو باآسانی دیکھ سکتے تھے۔
عمارخان نے ’گگھی ‘ میں کام کے تجربے کے حوالے سے بتایا کہ نرملا کے کردار کے لئے انہوں نے کتابیں پڑھیں، پرانے گانے سنے ۔مٹکے کو سر پر بیلنس کرنا اور اپلے تھاپنا بھی سیکھا۔ ۔۔اور اس دورمیں دوپٹہ کس طرح لیا جاتا تھا اس کی بھی پریکٹس کی۔