پاکستان میں وفاقی حکومت نے سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے نئے قانون کی منظوری دے دی ہے، جس کے تحت یوٹیوب، فیس بک، ٹوئٹر، ٹِک ٹاک کے لیے اسلام آباد میں دفتر کھولنا لازمی قرار دیا گیا ہے اور خلاف ورزی کی صورت میں 50 کروڑ روپے تک جرمانہ ہو گا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کی مخالفت کے باوجود پاکستان میں وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں وفاقی کابینہ نے سوشل میڈیا قواعد میں ترمیم کر دی ہے، جسے پارلیمان سے منظور کرانے کی ضرورت نہیں۔
نئے قوانین کو الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اور انٹیلی جنس ادارے کو قابل اعتراض مواد پر کارروائی کا اختیار بھی حاصل ہو گیا ہے۔
نئے قوانین پر فی الفور عمل درآمد شروع ہو گیا ہے، جس کے مسودے کے مطابق، تمام عالمی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بشمول یوٹیوب، فیس بک، ٹوئٹر، ٹِک ٹاک اور ڈیلی موشن سمیت دیگر تمام کمپنیوں کو تین ماہ میں رجسٹریشن کرانا ہو گی۔
نئی قانون سازی کے تحت رابطے کی تمام سماجی ویب سائٹوں کو 3 ماہ میں پاکستانی دارلحکومت اسلام آباد میں اپنا دفتر قائم کرنا ہوگا، اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں رابطہ افسر بھی تعینات کرنا ہوگا۔
نئے قانون میں یوٹیوب سمیت سوشل میڈیا پر بنائے جانے والے مقامی پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن کرانا بھی لازمی قرار دی گئی ہے۔ تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور کمپنیوں کو ایک سال میں پاکستان میں اپنے ڈیٹا سرورز بھی بنانا ہوں گے۔
سوشل میڈیا صارفین کو قومی سلامتی سے متعلق اداروں کے خلاف بات کرنے پر بھی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا اور تمام کمپنیوں کو ریگولیٹ کرنے کیلئے نیشنل کو آرڈینیشن اتھارٹی بھی بنائی جائے گی۔
نئے قواعد کے تحت اگر کوئی صارف سوشل میڈیا کے کسی بھی پلیٹ فارم پر ایسی ویڈیو یا مواد اپ لوڈ کرتا ہے جسے کوارڈینیشن اتھارٹی پسند نہیں کرتی تو کمپنیوں کو یہ مواد ہٹانا ہوگا اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں ان کی پاکستان میں سروسز معطل کر دی جائیں گی یا پچاس کروڑ روپے تک جرمانہ ہوگا۔
گزشتہ روز سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کو سوشل میڈیا ریگولیشن سے روکنے کی سفارش کی تھی۔ حزب اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما مصطفیٰ نواز کھوکر کی سربراہی میں انسانی حقوق کمیٹی کے اجلاس میں کمیٹی نے ویب ٹی وی چینلز پر فیس عائد کرنے اور ریگولیٹ کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔
اجلاس کے دوران قائمہ کمیٹی کے چیئرمین مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا تھا کہ پیمرا ویب ٹی وی اور او ٹی ٹی کانٹینٹ کو ریگولیٹ کرنا چاہتا ہے، جس پر بہت سے اداروں کے اعتراضات سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسا کرکے حکومت اظہار رائے پر پابندی عائد کرنا چاہتی ہے۔
پاکستان میں میڈیا کی آزادی کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیموں، بشمول میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی، پاکستان پریس فاؤنڈیشن، گلوبل نیبرہوڈ فار میڈیا انوویشن، سنٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشییٹوز سمیت دیگر اداروں نے بھی سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کی شدید مخالفت کی تھی، اور خاص طور پر یہ نکتہ اٹھایا کہ ڈیجیٹل میڈیا انڈسٹری کو ریگولیٹ کرنا پیمرا کے دائرہ اختیار سے باہر ہے اور اس سلسلے میں کوئی بھی پالیسی عوام کے منتخب نمائندوں کی طرف سے آنی چاہیے۔
اس حوالے سے میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کے اسد بیگ کہتے ہیں کہ ایسے قوانین سے آزادی اظہار رائے پر قدغن کا تاثر گہرا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے فائدے کے بجائے نقصان ہو سکتا ہے۔ بقول ان کے، حکومت کو اس پر مزید غور کرنے اور تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔