وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کا تعلق صرف سیاست سے نہیں بلکہ صحافت سے بھی ہے۔ سوشل میڈیا پر ان کے فالوورز کی تعداد لاکھوں میں ہے جبکہ وہ ٹی وی چینلوں پر ٹاک شوز کرتے رہے ہیں۔ صحافتی حلقوں نے ان کے وزیر اطلاعات بننے پر خوشی کا اظہار کیا اور امید ظاہر کی کہ ان کے دور میں میڈیا کو مکمل آزادی ملے گی۔
آج فواد چودھری نے اعلان کیا کہ نئی حکومت پاکستان میں ہر قسم کے میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے ایک نیا ادارہ بنائے گی جس میں ’پیمرا‘ اور ’پریس کونسل‘ جیسے ادارے ضم کردیے جائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ نئے ادارے میں پیشہ ور صحافیوں کو بھی شامل کیا جائے گا۔
پاکستان میں صحافی رہنما اور صحافتی ادارے میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے خلاف ہیں اور وزارت اطلاعات اور ’پیمرا‘ کو ختم کرنے کے مطالبات کرتے رہے ہیں۔ صحافیوں کا اصرار ہے کہ حکومت کے بجائے ان کی اپنی تنظیموں اور آزاد اداروں کو میڈیا کے معاملات کو دیکھنا چاہیے۔
تو پھر نئے ادارے سے کچھ توقعات رکھی جائیں یا خدشات؟
سینئر کالم نگار اور نیوز ویب سائٹ ’ہم سب‘ کے ایڈیٹر، وجاہت مسعود صاف صاف کہتے ہیں کہ ’’پاکستان کا میڈیا سنسرشپ کا شکار ہے اور فروری کے بعد اس میں سختی آئی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ کچھ خاص لفظ پرنٹ میڈیا میں لکھنے اور ٹی وی چینلوں پر بولنے پر پابندی عائد ہے۔ اس کے علاوہ کالم بھی روکے جارہے ہیں۔ نیا ادارہ حکومت کے ہاتھ میں سنسرشپ کا ایک نیا حربہ ہوگا‘‘۔
وجاہت مسعود نے تسلیم کیا کہ جعلی خبروں کی روک تھام ہونی چاہیے اور ان کے خلاف شکایت کی جگہ بھی لیکن جب پہلے ہی سے غیر اعلانیہ سنسرشپ لگی ہوئی ہو تو نئے قانون اور نئے ادارے سے اچھی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جن کالم نگاروں کی تحریریں اخبارات میں شائع نہیں کی جاتیں، وہ انھیں سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیتے ہیں۔ کیا نیا ادارہ نئے میڈیا پر بھی لوگوں کا گلا گھونٹے گا؟
صحافیوں کی ملک گیر تنظیم ’پی ایف یو جے‘ کے سابق سیکریٹری جنرل امین یوسف نے کہا کہ اگر حکومت کسی نئے ادارے کے ذریعے میڈیا کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے تو صحافی اسے قبول نہیں کریں گے۔
امین یوسف نے بتایا کہ ’پی ایف یو جے‘ نے کئی سال پہلے حکومت اور پارلیمنٹ کو تجویز پیش کی تھی کہ میڈیا سے شکایات کے ازالے کے لیے ایک ’کمپلینٹ کونسل‘ بنائی جاسکتی ہے۔ لیکن، تب بھی واضح کیا تھا کہ اس میں حکومت کی مداخلت کو قبول نہیں کیا جائے گا۔
’پیمرا‘ کے سابق چیئرمین ابصار عالم نے ’وائس آف امریکا‘ کو بتایا کہ آج جس ادارے کے بارے میں بات کی گئی ہے، اس پر ڈھائی سال سے ’آف کوم‘ کے ساتھ کام ہو رہا تھا۔ اس میں میڈیا انڈسٹری اور صارفین کے لیے بہت سے مثبت پہلو ہیں۔
’آف کوم‘ برطانیہ کا ریگولیٹر ہے جو پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا سب پر نظر رکھتا ہے۔ اس جیسے ادارے کی بدولت جعلی خبروں، جھوٹے الزامات اور کردار کشی کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔
اس خوش امیدی کے باوجود ابصار عالم نے یہ بھی کہا کہ جب ایسے قوانین بنائے جاتے ہیں تو بعض ایسی شقیں شامل کردی جاتی ہیں جس سے صحافت کی آزادی متاثر ہوسکتی ہے۔ بہتر ہوگا کہ نیا قانون بنانے سے پہلے صحافیوں کی تنظیموں سے مشاورت کی جائے۔