پاکستان کے نئے وزیرِ اعظم کے انتخاب کی دوڑ میں شرکت کے خواہاں پانچوں اُمید واروں کے کاغذات نامزدگی منظور ہو گئے ہیں۔
سپریم کورٹ کی طرف سے منگل کو وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو نا اہل قرار دیے جانے کے بعد صدر آصف علی زرداری نے آئینی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے وزیرِ اعظم کے انتخاب کے لیے جمعہ کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کر رکھا ہے۔
قومی اسمبلی کی اسپیکر فہمیدہ مرزا نے جمعرات کو کاغذاتِ نامزدگی جمع کروانے والے پانچوں اُمید واروں کو وزیر اعظم کے انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت دے دی۔
ان میں پیپلز پارٹی کے سابق وزراء مخدوم شہاب الدین، راجہ پرویز اشرف اور قمر زمان کائرہ شامل ہیں، جب کہ دیگر دو اُمید واروں میں سے سردار مہتاب احمد خان کا تعلق مسلم لیگ (ن) اور مولانا فضل الرحمٰن کا جمیت علما اسلام (ف) سے ہے۔
کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے بعد پارلیمان کے احاطے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مخدوم شہاب الدین نے اُن کی متفقہ نامزدگی پر اپنی جماعت اور اس کی حلیف پارٹیوں کا شکریہ ادا کیا۔
’’میں صدرِ گرامی کا بے حد ممنون اور شکر گزار ہوں جنھوں نے مجھے پاکستان پیپلز پارٹی کے اُمید وار کی حیثیت سے نامزد کیا ... میں خصوصی طور پر اتحادیوں کا بھی شکر گزار ہوں جنھوں نے میرے ساتھ تعاون کیا اور (اب بھی) کر رہے ہیں۔‘‘
لیکن عین اُس وقت جب جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے مخدوم شہاب الدین اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروا رہے تھے انسداد منشیات کے وفاقی ادارے اینٹی نارکاٹکس فورس (اے این ایف) کی روالپنڈی میں عدالت نے تحقیقات کے سلسلے میں اُن کی گرفتاری کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کر دیے۔
اے این ایف کے حکام ان دنوں سپریم کورٹ کی ہدایت پر بعض ادویات کی تیاری کے لیے درکار ایفیڈرین نامی کیمیائی مواد کی ملتان کی دو کمپنیوں کو حد سے زیادہ مقدار میں درآمد کی اجازت دینے کے اسکینڈل کی تحقیقات کر رہے ہیں جس میں معزول وزیر اعظم گیلانی کے بیٹے رکن قومی اسمبلی علی موسٰٰی گیلانی بھی شامل تفتیش ہیں۔
بظاہر اس ہی پیش رفت کے بعد پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق وزیرِ اطلاعات قمر زمان کائرہ بھی خلاف توقع آخری وقت پر وزارتِ عظمیٰ کے لیے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرنے سیکرٹری قومی اسمبلی کے دفتر پہنچ گئے۔
قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کو واضح اکثریت حاصل ہے مگر اس کے باوجود صحافیوں سے گفتگو میں مسلم لیگ ن کے اُمیدوار سردار مہتاب احمد خان خاصے پُر اُمید اور پُر جوش دیکھائی دیے۔
اُن کا دعویٰ تھا کہ وزیر اعظم بننے کے بعد اُن کی ترجیح بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوگی مگر مسلم لیگی رہنما اس حقیقت کا اعتراف کیے بغیر نا رہے سکے کے پارلیمان میں حزب مخالف کی جماعتیں عدم اتحاد کا شکار ہیں۔
’’اپوزیشن کو متفقہ طور پر انتخاب لڑنا چاہیئے اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے۔ ہم اُمید کرتے ہیں کہ جے یو آئی اور ہمارے درمیان اس بارے میں اتفاق پیدا ہو جائے گا۔‘‘
وزیر اعظم بننے کی دوڑ میں آخری لمحات میں جمیعت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی شمولیت سیاسی مبصرین کے لیے تعجب کا باعث بنی ہے۔
مگر کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں اس حوالے سے پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے فضل الرحمٰن نے کہا کہ قومی اسمبلی میں اُن کی جماعت کے چند اراکین ہونے کے باوجود اُنھوں نے سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے۔
’’ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے نمبر کتنے ہیں لیکن ہم اُن کو نظرثانی کا ایک موقع مہیہ کر رہے ہیں کہ اگر ملک کے اندر جمہوریت کو مستحکم کرنا ہے تو پیپلز پارٹی کی جو اس وقت صورت حال جا رہی ہے اور اداروں سے ٹکراؤ کی جو کیفیت ہے یہ ملک کو مارشلا کے انجام تک پہنچا سکتی ہے۔‘‘
قومی اسمبلی کے کل 342 اراکین کے ایوان میں وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے 172 ارکان کی سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے، اور پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کو ایوان میں واضح اکثریت حاصل ہے۔