لمبی عمر پانے کی تمنا کسے نہیں ہوتی، لیکن ماہ و سال کی گنتی محدود ہے۔ انسان صدیوں سے زندگی کی طوالت میں اضافہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جینیاتی سائنس نے اس سمت امید کی ایک کرن روشن کی ہے۔
حال ہی میں یونیورسٹی کالج لندن کے سائنس دانوں نے کہا ہے کہ انہوں نے جینز کا ایک ایسا گروپ دریافت کیا ہے جس کا ہماری زندگی کی طوالت سے گہرا تعلق ہے۔ انہیں توقع ہے کہ اس جین کے عمل پر کنٹرول سے انسان کی زندگی میں چند برسوں کا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
جین ہمارے جسم کا سب سے مختصر اور مکمل ترین حصہ ہے۔ ایک انسانی جسم میں جینز کی تعداد کھربوں میں ہوتی ہے۔ جین کے اندرہماری ساری معلومات درج ہوتی ہیں، مثلاً یہ کہ ہماری آنکھوں، بالوں اور جلد کی رنگت کیا ہو گی۔ ہماری عادات اور رجحانات کیا ہوں گے۔ ہماری جسمانی اور دماغی صلاحیت کتنی ہوگی۔ کون کون سی بیماریاں لاحق ہونے کا امکان ہو گا اور یہ کہ امکانی عمر کتنی ہو گی۔ گویا جین ہماری لوح حیات ہے۔
آپ نے ڈی این اے کا نام تو اکثر سنا ہو گا۔ ڈی این اے کے ٹیسٹ بھی اب عام ہوتے جا رہے ہیں جو زندگی کے بہت سے پوشیدہ رازوں سے پردہ اٹھا دیتے ہیں۔ جینز، ڈی این اے کا حصہ ہوتے ہیں۔ جو ایک لڑی میں پروئے ہوتے ہیں۔ ان دھاگوں یا لڑی کو کروموسوم کہا جاتا ہے۔ ایک انسانی سیل میں ان دھاگوں کے 23 جوڑے ہوتے ہیں۔ ہماری زندگی کی کہانی اسی ڈور سے بندھی ہوئی ہے۔ ہمارا جسم اربوں کھربوں سیلز سے مل کر بنتا ہے۔
یونیورسٹی کالج لندن کے سائنس دانوں نے کہا ہے کہ انہوں نے انسانی جینز کا ایک ایسا گروپ دریافت کیا ہے جو عمر کے ابتدائی دور میں ہمارے جسمانی خلیوں کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتا ہے اورعمر کے دوسرے دور میں وہ زندگی کی طوالت میں خلل ڈالنے لگتا ہے۔
ایک سائنسی جریدے جنوم ریسرچ میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سائنس دان زندگی کے دورانیے کے حوالے سے دیگر چھوٹے جانداروں، مثلاً کیچوؤں اور فروٹ فلائز پر تجربات کر چکے ہیں جس میں انہیں ان کی اوسط عمر میں 10 فی صد تک اضافہ کرنے میں کامیابی ملی۔
اس کامیابی کے بعد یونیورسٹی کالج لندن کے "انسٹی ٹیوٹ آف ہیلدی ایجنگ" کے سائنس دانوں نے انسانوں پر تجربات شروع کیے، جس کے لیے انہوں نے 11262 افراد کا جینیاتی ڈیٹا اکھٹا کیا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے 90 سال سے زیادہ عمر پائی تھی۔ سائنس دانوں کو پتہ چلا کہ ان سب میں جینز کے ایک مخصوص گروپ کی ایک خاص مماثلت پائی گئی، جب کہ ان کے مقابلے میں کم عرصہ جینے والوں کے گروپ میں یہ مماثلت موجود نہیں تھی۔
اس تحقیق میں شامل ایک ریسرچر نزف اہلک کہتے ہیں کہ جینز کا یہ گروپ عمر ڈھلنے کے بعد ہمارے خلیوں کے پروٹین بنانے کے عمل میں خلل ڈالنے لگتا ہے۔ اگر اسے روک دیا جائے تو زندگی کے دورانیے میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
ایلک نے بتایا کہ یہ جینز زندگی کے ابتدائی دور میں ہمارے خلیوں کی نشوونما کے لیے پروٹین تیار کرتے ہیں، خاص طور پر ہمارے پیٹ، جگر اور جسمانی ڈھانچوں کے خلیوں کے لیے۔ ان کا یہ عمل بچپن کے دور میں بہت تیز ہوتا ہے، مگر عمر بڑھنے کے بعد ہمیں ان کی کچھ زیادہ ضرورت نہیں رہتی۔ اس دوران ان جینز کا عمل بھی تبدیل ہو جاتا ہے اور وہ ایسی بیماریاں پیدا کرنے کا موجب بن جاتے ہیں جنہیں بڑھاپے کے امراض کہا جاتا ہے۔
یونیورسٹی کالج لندن کے جینیٹک انسٹی ٹیوٹ کی پروفیسر کیرولین کو چن بیکر کہتی ہیں کہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ چھوٹے جانداروں میں زندگی کا دائرہ کس طرح کام کرتا ہے، لیکن انسانوں میں یہ عمل مختلف طریقے سے انجام پاتا ہے۔ ہم اس چیز کو سامنے رکھتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں انسانوں کی زندگی کے دورانیئے میں کس طرح اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
گزشتہ چند عشروں کے دوران میڈیکل سائنس کے شعبے میں ہونے والی ترقی سےدنیا بھر میں انسان کی اوسط عمر میں نمایاں اضافہ ہو چکا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں یہ اوسط 80 سال سے زیادہ ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ انسانی زندگی کو ایک سو کے ہندسے سے اوپر لے جانا ممکن ہے۔