اب تک کرونا وائرس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ کھانسنے یا چھیکنے یا زور سے بولنے سے مریض کے منہ یا ناک سے خارج ہونے والے ذرات سے یہ وائرس دوسرے شخص کو شکار کرتا ہے۔ مگر اب بارہ ملکوں کے ڈھائی سو کے قریب سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ وائرس ہوا کے ذریعے انفیکشن پھیلاتا ہے اور بند جگہوں پر بھی اس سے بچنے کے لیے احتیاط کرنی چاہیے۔
اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق بارہ ملکوں کے 239 سائنس دانوں نے عالمی ادارہ صحت کے نام ایک کھلے خط میں کہا ہے کہ وہ کرونا وائرس سے بچنے کے لیے اپنی ہدایات پر نظرِ ثانی کرے۔
اس ہفتے کے ایک سائنسی رسالے میں اس خط کے مندرجات شائع کیے جائیں گے۔
ان سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس ہوا سے پھیلتا ہے، یعنی وائرس کے ذرات بند جگہوں میں گردش کرتے ہیں اور سانس لیتے ہوئے یہ ذرات انسانی جسم کے اندر جا سکتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے وائرس سانس کے ذریعے ننھے ننھے قطروں کی شکل میں باہر نکلتے ہیں اور دوسرے شخص کو شکار کرتے ہیں۔ یعنی متاثرہ شخص کے کھانسنے اور چھیکنے سے یہ قطرے باہر آتے ہیں۔ یہ انتہائی چھوٹے اور باریک ہوتے ہیں ، اس لیے جلد ہوا میں مل جاتے ہیں۔
اخبار نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ اگر یہ وائرس ہوا سے پھیلتا ہے تو پھر اس کو پھیلنے سے روکنے کی تدبیر بدل جائے گی اور ماسک کو گھروں کے اندر بھی لگانا ہو گا۔ اب تک گھروں کے اندر ماسک استعمال نہیں کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ چھ فٹ سے دوری پر بھی اس کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔
اسی طرح وینٹی لیٹرز نظام میں بھی تبدیلی لانا ہو گی اور ہوا کی گردش کو کم سے کم کرنا ہو گا۔
حال ہی میں کرونا کیسیز کی تعداد میں جو اضافہ ہوا ہے، اس کی وجہ عام طور سے یہ بتائی گئی کہ کاروبار اور دوکانیں کھلنے اس وبا کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا۔ اگر اس مفروضے کو سامنے رکھا جائے تو ان سائنس دانوں کی بات مصدقہ لگتی ہے کہ یہ وائرس ہوا میں موجود رہتا ہے اور بند کمروں میں بھی انفیکشن کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا ہے۔