دنیا کے 150 سے زائد ممالک میں بچوں کو پولیو کے خلاف نئی ویکسین پلانے کا ایک عمل اتوار کو شروع ہوا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اس متعدی بیماری کے پھیلاؤ کو ایک سال کے اندر روکا جا سکتا ہے اور اس دہائی کے آخر تک عالمی سطح پر اس مرض کے مکمل خاتمے کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔
تاہم اس کے لیے تیس سال سے مستعمل ویکسین کی جگہ نئی ویکسین استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
اب تک بہت سے ممالک تین قسم کے پولیو وائرس کے خلاف مدافعت فراہم کرنے والی ویکسین استعمال کر رہے تھے، ٹائپ ون، ٹائپ ٹو اور ٹائپ تھری۔ ان میں سے ٹائپ ٹو وائرس کا 1999 میں خاتمہ کیا جا چکا ہے جبکہ اب صرف ٹائپ ون اور ٹائپ تھری قسموں کو ختم کرنا باقی ہے۔
لہٰذا صحت کے حکام کا خیال ہے کہ ٹائپ ٹو کو ویکسین میں شامل رکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ شاذونادر ہونے والے کیسوں میں ویکسین ہی بچے میں ٹائپ ٹو پولیو کا سبب بنی۔
اب صحت کے حکام صرف ٹائپ ون اور ٹائپ تھری پولیو وائرس کے خلاف مدافعت فراہم کرنے والی نئی ویکسین متعارف کروا رہے ہیں۔
17 اپریل سے یکم مئی تک 150 سے زائد ممالک تین کی بجائے دو قسموں کے پولیو وائرس کے خلاف مدافعت پیدا کرنے والی نئی ویکسین بچوں کو پلائیں گے۔
عالمی ادارہ صحت کے انسداد پولیو کے ڈائریکٹر مائیکل زفران نے کہا کہ اس سال دنیا بھر میں پولیو کے 12 کیس سامنے آئے ہیں۔ یہ تمام بچے پاکستان اور افغانستان میں پولیو سے متاثر ہوئے۔ مائیکل کے بقول یہ وائرس ان ممالک کی سرحدوں سے باہر بھی پھیل سکتا ہے۔
پولیو کے خلاف 1988 میں عالمی مہم شروع ہونے کے بعد سے اب تک دنیا بھر میں اس کے کیسز میں 99 فیصد کمی واقع ہوئی ہے مگر آخری ایک فیصد کو ختم کرنا زیادہ مشکل ثابت ہوا ہے۔
افغانستان اور پاکستان دو آخری ملک ہیں جہاں پولیو کا اب تک خاتمہ نہیں کیا جا سکا۔