بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت نے اپنے لگ بھگ پانچ لاکھ ملازمین کو خبردار کیا ہے کہ ان کی کسی بھی ملک دشمن یا پر تشدد سرگرمی میں بالواسطہ یا بلا واسطہ وابستگی برطرفی کی وجہ بن سکتی ہے۔
اس سلسلے میں رواں ہفتے جمعرات کو تمام سرکاری محکموں کے سربراہان کے نام جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ (جی اے ڈی) کی طرف جاری کیے گئے ایک حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ملازمین کے کردار اور ذاتی حالات کے بارے میں متواتر کی جانے والے تحقیقات کے دوران یہ پتا لگایا جائے گا کہ وہ تخریب کاری، جاسوسی، ملک سے غداری، دہشت گردی، تباہی و بربادی، بغاوت، علیحدگی، غیر ملکی مداخلت کو آسان بنانے اور تشدد پر اکسانے جیسے سنگین جرائم یا کسی اور غیر آئینی کام میں ملوث تو نہیں ہیں۔
حکم نامے کے مطابق اب سرکاری ملازمین کی ایسے افراد کے ساتھ وابستگی یا ہمدردی، جو اس طرح کی کارروائیاں کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں، بھی ان کے لیے بھاری پڑ سکتی ہے۔
قرابت داروں پر نگاہ رکھنا بھی لازم قرار
اس کے علاوہ حکومت نے ایسے رشتے داروں، ان افراد جن کے ساتھ وہ ایک ہی رہائشی جگہ پر رہتے ہوں اور اپنے ان ساتھیوں کے بارے میں جن کے کسی ایسی غیر ملکی حکومت، تنظیم یا غیر ملکی شہری کے ساتھ روابط ہوں، جو بھارت کے قومی مفاد سے بالواسطہ یا بلاواسطہ دشمنی رکھتے ہوں، متعلقہ اداروں کو ان سے متعلق باخبر کیے جانے کی امید بھی ظاہر کی گئی ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ مختلف سرکاری محکمے اور دوسرے ادارے اپنے ملازمین کے کردار اور کوائف جاننے کے لیے کی جانے والی چھان بین کے دوران اس بات کا بھی خیال رکھیں گے کہ زیرِ تحقیقات ملازم کے خاندان کا کوئی فرد یا اس کے ساتھ ایک ہی جگہ رہنے والا کوئی ایسا شخص، جس سے وہ محبت و شفقت رکھتا ہو، اُس کی کسی ایسی سرگرمی میں بالواسطہ یا بلاواسطہ ملوث تو نہیں ہے جس کی وجہ سے اس پر جبر، دھونس یا دباؤ پڑنے کا امکان ہو اور اس طرح یہ ایک سنگین سیکیورٹی خطرے کی بنیاد بن سکتا ہے۔
منفی رپورٹ ملازمت سے برطرفی کا مؤجب بن سکتی ہے
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی ملازم کے بارے میں منفی رپورٹ سامنے آتی ہے تو متعلقہ محکمے کا انتظامی شعبہ اس کا سنجیدہ نوٹس لیتے ہوئے اس بارے میں جی اے ڈی کو مطلع کرے گا اور اگر ایسے کسی ملازم کو ترقی ملنے والی ہو تو اس کے کیس کو فوری طور پر التوا میں رکھا جائے گا۔
اس کے ساتھ ہی یہ معاملہ جموں و کشمیر کی اسکریننگ کمیٹی کے نوٹس میں بھی لایا جائے گا۔
محکمۂ داخلہ کے پرنسپل سیکریٹری کی قیادت میں قائم اس کمیٹی کو ایسے سرکاری ملازمین کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
کئی سرکاری ملازم پہلے ہی سبکدوش کیے جا چکے ہیں
واضح رہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے سربراہِ انتظامیہ لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے گزشتہ چند ماہ کے دوران بھارت اور ریاست مخالف سرگرمیوں میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں متعدد سرکاری ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کیا ہے۔
لیفٹننٹ گورنر کے مطابق برطرف کیے گئے ملازمین کی سرگرمیاں کچھ اس طرح کی رہی تھیں کہ ان کا ملازمت میں رہنا ریاست کی سیکیورٹی کے مفاد کے منافی تھا۔
نوکریوں سے برطرفی کے ان احکامات میں کہا گیا تھا کہ لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے یہ کارروائیاں آئین کے آرٹیکل 311 کے تحت کی ہیں اور وہ ان معاملات کی تحقیقات کرانا مناسب یا ضروری نہیں سمجھتے۔
محکمۂ داخلہ اور محکمۂ جنرل ایڈمنسٹریشن کے حکام نے ان کارروائیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ سروس رولز کے تحت کوئی بھی سرکاری ملازم کسی سیاسی تحریک میں شریک نہیں ہو سکتا اور نہ کسی ایسی سرگرمی کا حصہ بن سکتا ہے جو ملک کے مفاد میں نہ ہو یا انتظامیہ کے امور کو متاثر کرنے کا باعث بن جائے۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت نے کچھ عرصہ پہلے ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث سرکاری ملازمین کے خلاف سخت پالیسی اختیار کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس نے اب تک ملازمین کی ایک بڑی تعداد کو برطرف کر دیا ہے۔
کئی سرکاری ملازمین کو پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں نے ملک یا سماج دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا ہے۔
سرکاری ملازمین کی انجمنوں اور اپوزیشن جماعتوں نے ملازمین کی برطرفی پر شدید تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ حکومت کی یہ کارروائیاں بے قاعدہ اور من مانی ہیں۔
خصوصی ٹاسک فورس کا قیام
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی انتظامیہ نے رواں سال اپریل میں ریاست کی سلامتی کے منافی اور ملک دشمن سرگرمیوں میں مبینہ طور پر ملوث سرکاری ملازمین کی شناخت اور جانچ کرنے کے لیے ایک خصوصی ٹاسک فورس قائم کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔
محکمۂ پولیس کی سی آئی ڈی ونگ کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کو اس ٹاسک فورس کا چیئرمین مقرر کیا گیا تھا۔ جب کہ اس کے اراکین میں جموں اور کشمیر وادی کے انسپکٹر جنرل آف پولیس اور داخلہ، قانون، انصاف اور پارلیمانی امور کے محکموں کے نمائندے شامل ہیں۔
حکام کے مطابق جس سرکاری ملازم کے بارے میں جانچ پڑتال کی جا رہی ہو اس کے محکمے کے نمائندے کو بھی اس عمل میں شامل ہونے کی دعوت دی جاتی ہے۔
ناقدین نے ٹاسک فورس کے قیام کو من مانا فیصلہ قرار دیتے ہوئے لیفٹننٹ گورنر سے اسے فوری طور پر واپس لینے کے لیے کہا تھا۔
جموں و کشمیر کو درپردہ جنگ اور دہشت گردی کا سامنا
جی ڈی اے حکام کے مطابق محکمے کی طرف سے جاری کیے گئے تازہ حکم نامے پر عمل کرنے کے دوران اگر کسی سرکاری ملازم کے بارے میں منفی رپورٹ سامنے آ جاتی ہے تو اسے پرنسپل ہوم سیکریٹری کی سربراہی میں کام کرنے والی اسکریننگ کمیٹی کو پیش کیا جائے گا۔
اُنہوں نے بتایا کہ اس کمیٹی کو رپورٹ پر فیصلہ کرنے کا مکمل اختیار ہوگا جس میں ملازم کو نوکری سے بر طرف کرنا بھی شامل ہوسکتا ہے۔ تاہم ایک ریویو کمیٹی، جس کی سربراہی جموں و کشمیر کا چیف سیکرٹری کرتا ہے، معاملے کا از سر نو جائزہ لے سکتی ہے۔ اس کے دوران متاثرہ ملازم کو اپنا دفاع کرنے کا پورا موقع فراہم کیا جائے گا۔
تازہ حکم نامے کا دفاع کرتے ہوئے جی ڈی اے اور محکمۂ داخلہ کے حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جموں و کشمیر ایک حساس علاقہ ہے جو اُن کے بقول سرحد پار سے در پردہ جنگ اور دہشت گردی کا سامنا کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس پس منظر میں نئے ضابطوں اور پیمانوں کا بنیادی مقصد سرکاری ملازمین کے دہشت گردی، علیحدگی پسند اور تخریب کاری کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے جیسے خطرے سے نمٹنا ہے اور اس سے ایسے کسی سرکاری ملازم کو خائف ہونے کی بالکل ضرورت نہیں جو اس طرح کی کسی سرگرمی سے جڑا ہوا نہیں ہے۔
ایمپلائز کنڈکٹ رولز 1971 کے تحت ہر سرکاری ملازم پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنے پورے عرصۂ ملازمت کے دوران مکمل ایمان داری اور دیانت داری کا مظاہرہ کرے، ملک کی سالمیت کا خیال رکھے، بھارت اور اس کے آئین کے مطابق وفادار رہے اور ایسا کچھ ہرگز نہ کرے جو ایک سرکاری ملازم کی حیثیت سے اس کو زیب نہ دیتا ہو۔
جموں و کشمیر سرکاری ملازمین کے رہنماؤں اور حزبِ اختلاف کی تنقید
تاہم 1997 میں جاری کی گئیں جموں و کشمیر سول سروسز رولز، جن میں وقتاََ فوقتاََ ترامیم کی گئی ہیں، تازہ حکم نامے کے تحت ملازمین کی متواتر چھان بین کے لیے جو نئے نہایت وسعت کے حامل لیکن مبہم پیمانے مقرر کیے گئے ہیں، وہ ان کے ایک وسیع حلقے میں ہیجان پیدا کرنے کا باعث بن گئے ہیں۔
حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے اسے حکومت کی طرف سے اٹھایا گیا ایک من مانا اقدام قرار دیا ہے۔ جو ان کے بقول سرکاری ملازمین میں عدم تحفظ پیدا کر کے اُن کے کام کاج پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔
مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی (سی پی آئی ایم) کے لیڈر محمد یوسف تاریگامی نے حکم نامے پر اپنا ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ لگتا ہے کہ حکومت چاہتی ہے کہ اس کے ملازمین اپنے فرائض منصبی انجام دینے کے ساتھ ساتھ پولیس مخبروں کا رول بھی ادا کریں۔ یہ سراسر زیادتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے صرف ایک دن پہلے یہ حکم جاری کیا تھا کہ سرکاری ملازمین کو اینٹی کرپشن بیورو کے سندوں کے بغیر بھارتی پاسپورٹ کا اجرا نہیں کیا جائے گا۔ جن کے خلاف بد عنوانی یا کسی اور معاملے میں تحقیقات کی جا رہی ہوں ان کو بھی پاسپورٹ کا اجرا نہیں ہوگا۔
ان کے بقول سب جانتے ہیں کہ کوئی بھی ملزم تب تک معصوم ہے جب تک اس کے خلاف جرم ثابت نہیں ہوتا۔ ان کے بقول اس طرح کے بے قاعدہ اور من مانے احکامات اور اعلانات کا مقصد سرکاری ملازمین کو تنگ کرنا ہے۔
تاریگامی نے کہا کہ ایک سرکاری ملازم حکومت کی پالیسیوں پر عمل درآمد کرانے کا ایک آلہ ہوتا ہے اور اگر اسی ملازم کے بارے میں بار بار شکوک و شبہات پیدا کرکے اسے مشکوک اور مشتبہ بنایا جاتا ہے تو یہ طرزِ عمل اس کے کام پر منفی اثرات ڈال سکتا ہے۔
ایمپلائز جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے سابق سربراہ عبدالقیوم وانی نے کہا کہ ملازمین حکومت کی پالیسیوں پر عمل درآمد کرانے کے لیے سرکاری مشینری کے ہاتھ اور پاؤں کی طرح ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ اس کنبے کے ایک حصے کی حیثیت سے سلوک کرنے کے بجائے انہیں اس طرح کے احکامات جاری کرکے مسلسل ذہنی اذیت کا شکار بنایا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک سرکاری ملازم کو اُس کے خاندان کے کسی فرد، کسی اور قرابت دار یا جان پہچان والے کی سرگرمیوں کی بنا پر کسی کارروائی کا ہدف بنانا ناقابل قبول ہے کیوں کہ ایسا کرنا انصاف کے تقاضوں کے بالکل منافی ہو گا۔
امن بگاڑنے کی سازش ہو رہی ہے
اس دوران لیفٹننٹ گورنر سنہا نے الزام لگایا ہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں امن او امان کی صورتِ حال کو بگاڑنے کے لیے نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر سازش ہو رہی ہے۔
انہوں نے جموں میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں سوشل میڈیا کو ایک قوی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اُن کے بقول قوم دشمن عناصر کو نہیں بخشا جائے گا اور دہشت گردی کا قلع قمع کیا جائے گا۔
سنہا نے مزید کہا کہ سوشل میڈیا کو ایک نئے جنریشن وار فیئر کے طور پر استعمال کیے جانے پر کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے اور جموں و کشمیر پولیس اور سیکیورٹی فورسز پہلے ہی اس کام پر لگی ہوئی ہیں۔