نیویارک کے علاقے مین ہیٹن کو آلودگی اور ٹریفک جام سے بچانے کے لئے نئے ضابطے بنائے جا رہے ہیں جن کے تحت اس علاقے میں داخل ہونے والے ڈرائیوروں کو جلد ’رش فیس‘ کی مد میں اضافی رقوم ادا کرنا پڑیں گی۔
سٹاک ہوم اور سنگاپور جیسے شہر بھی سڑکوں پر ہجوم کم کرنے کے لیے رقوم کی ادائیگی جیسے اضافی محصول عائد کر رہے ہیں اور ڈرائیوروں کے لیے اس چیز کو مشکل بنا رہے ہیں کہ وہ شہر کے اندر گاڑیاں لے کر آئیں۔
وائس آف امریکہ کے لیے سٹیو بیراگونا کی رپورٹ کے مطابق ٹریفک کی وجہ سے دنیا کےکئی شہروں میں زندگی کی رفتار سست ہو رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق فضائی آلودگی کے سبب ہر سال 40 لاکھ کے لگ بھگ افراد موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تغیر سے متعلق خدشات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور دنیا بھر میں پھیلتی ہوئی گاڑیوں کی تعداد کم کرنے کی جانب توجہ بڑھ رہی ہے۔
ماہرین اقتصادیات بڑھتے ہوئے ہجوم پر فیس لگانے کو پسند کرتے ہیں، لیکن یہ بات ڈرائیوروں کو اچھی نہیں لگ رہی لیکن دوسری جانب جن شہروں نے پر ہجوم جگہوں پر گاڑیاں لے جانے پر فیس لگائی ہے، وہاں ووٹرز اس چیز کو قبول کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
یہ حکمت عملی اس طرح کام کرتی ہے کہ شہروں کے اندر کاروباری علاقوں کی حد بندی کی جاتی ہے اور یہ سرحد عبور کرنے والی گاڑی کو اضافی رقم دینا پڑتی ہے جیسے ٹول پلازوں پر دی جاتی ہے۔ بعض شہروں نے رش فیس سے آگے بڑھتے ہوئے گاڑیوں کے ماڈل اور ان سے نکلنے والے دھوئیں کی مناسبت سے اضافی چارجز لگائے ہیں۔
لندن نے گاڑیوں کا کیمرہ نیٹ ورکس کے ذریعے حساب کتاب رکھا ہوا ہے جو گاڑی کی لائسنس پلیٹ کی تصویر بنا لیتے ہیں اور گاڑی کے مالک کو گھر پر بل بھجوا دیا جاتا ہے۔ بعض دیگر شہروں میں برقی ٹیگز لگائے جاتے ہیں۔ بعض شہر گاڑیوں کی شناخت کی بجائے مخصوص دنوں میں لائسنس پلیٹ نمبروں کی بنیاد پر گاڑیوں کو روک لیتے ہیں۔
نیویارک سٹی نے اس بارے میں میٹنگز شروع کر دی ہیں کہ رش فیس کا اطلاق کس طرح کیا جائے؟۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو امریکہ میں نیویارک رش فیس لاگو کرنے والا امریہ کا پہلا شہر ہو گا۔
موجودہ تجاویز کے مطابق ڈرائیوروں کو نیویارک کے مرکزی علاقے سینٹرل پارک کے جنوب میں گاڑی لے جانے کے لیے 9 سے 23 ڈالر ادا کرنا پڑیں گے البتہ کچھ کو استثنیٰ حاصل ہو گا۔
ڈرائیوروں سے جو رقوم حاصل ہوں گی اسے شہر کے ٹرانزٹ سسٹم میں بہتری لانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جن شہروں نے رش فیس لاگو کی ہے وہاں ٹریفک کی صورت حال بہتر ہوئی ہے اور آلودگی میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔
مثال کے طور پر سال 2008 میں میلان شہر نے آلودگی پھیلانے والی گاڑیوں کے شہر میں داخلے پر فیس لگانا شروع کی تو اس سے فرق پڑا۔ کچھ وقت کے لیے ٹریفک تھم گئی۔
لیکن اس کے بعد ڈرائیوروں نے پرانی گاڑیوں کی جگہ نئی،نسبتاً صاف گاڑیاں خرید لیں اور سڑکیں ایک بار پھر بھر گئیں۔
لہٰذا 2012 میں شہر کی انتظامیہ نے تمام گاڑیوں پر رش فیس عائد کر دی۔
اس کے موثر ہونے کی صورت اس وقت سامنے آئی جب اٹلی کی عدالت نے کچھ وقت کے لیے اس اضافی رش فیس کو روک دیا اور شہر دوبارہ گاڑیوں سے اٹ گیا۔
تحقیق کرنے والوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ رش فیس سے ٹریفک میں 14 فیصد کمی آتی ہے اور فضائی آلودگی میں چھ سے 17 فیصد کمی آئی ہے جو کہ بہت بڑا فرق ہے۔