امریکہ اور چین نے عالمی موسمیاتی تبدیلی پر ہونے والے سمٹ سی او پی 26 کے مندوبین کو بدھ کو اس وقت خوشگوار حیرت میں ڈال دیا جب دونوں ممالک نے اگلے عشرے میں عالمی درجۂ حرارت کے بڑھنے کے عمل کو روکنے کے لیے مشترکہ طور پر اقدامات اٹھانے کا اعلان کیا۔
یاد رہے کہ اس ہفتے دنیا بھر کے رہنما اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں عالمی درجۂ حرارت کو اوسطاً 1.5 سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے کے لائحہ عمل پر اتفاق کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔
دونوں ممالک کی جانب سے جاری کیے گئے اشتراک کے اعلامیے میں میتھین گیس کے اخراج پر قابو پانا، جنگلات کی غیر قانونی کٹائی کو روکنا، توانائی کے صاف ذرائع پر کام کرنا اور غریب ممالک کی امداد جیسے اقدامات شامل تھے۔ اس اعلامیے میں اہداف اور تاریخیں نہیں دی گئی ہیں۔
اس اعلامیے پر جہاں اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے مبارکباد کا پیغام دیا ہے وہیں موسمیاتی تبدیلیوں پر کام کرنے والے کارکنان اس پیش رفت پر محتاط ردِعمل دے رہے ہیں۔
چین اور امریکہ کو تیز رفتار صنعتی ترقی کے باعث دنیا بھر میں آلودگی پھیلانے والے ممالک میں سرِ فہرست سمجھا جاتا ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف لڑائی میں ان دو ممالک کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات بہت اہم ہوں گے۔
موسمیاتی تبدیلی کے لیے امریکی صدر کے ایلچی جان کیری نے بدھ کو گلاسگو میں رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ دونوں ممالک کی جانب سے جاری کیے جانے والا اعلامیہ ان ممالک کی جانب سے اپریل میں موسمیاتی تبدیلی پر دیے گئے بیانات سے مطابقت رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس اعلامیے کے ساتھ اس مسئلے پر مستقبل میں اشتراک کے لیے ایک لائحہ عمل سامنے آ گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ اور چین کے مابین بہت سے امور پر اختلافات ہیں لیکن موسمیاتی تبدیلی کے معاملے میں اشتراک سے ہی اس پر کام ہو سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ سائنس، حساب اور طبیعات کا معاملہ ہے جو آگے کے سفر کو طے کرتے ہیں۔
چین کی جانب سے مذاکرات کار شی زینہوا نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ مستقبل کی نسلوں کی خوشحالی کے لیے ضروری ہے۔ ان کے مطابق اب موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ فوری اور گھمبیر ہے اور مستقبل میں یہ ہمارے وجود کا مسئلہ بن جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کے معاملے میں امریکہ اور چین کے درمیان کافی حد تک اتفاق پایا جاتا ہے اس لیے اس معاملے میں اشتراک کے لیے بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔
ان کے بقول گلاسگو میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق سمٹ کے ختم ہونے سے دو دن پہلے یہ اعلامیہ کانفرنس کی کامیابی میں کردار ادا کرے گا۔
ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ میں کلائمیٹ پالیسی ایکشن کی امریکی ڈائریکٹر جینیوائیو ماریکل نے وائس آف امریکہ سے بذریعہ ای میل بات کرتے ہوئے کہا کہ جہاں ان دو ممالک کی جانب سے حمایت عالمی درجۂ حرارت کو بڑھنے سے روکنے میں بہت اہم ہو گی وہیں ہمیں یہ بات واضح کرنی چاہیے کہ اگلے نو برسوں میں ایسا کرنے کے لیے پوری معیشت کی جانب سے ردِعمل آنا ضروری ہے۔
کانفرنس کے میزبان برطانوی وزیرِاعظم بورس جانسن نے مندوبین سے اپیل کی کہ وہ اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیں۔
انہوں نے کہا کہ جہاں ابھی یہ سب مشکل لگ رہا ہے وہیں یہ ناممکن نہیں کہ عالمی درجۂ حرارت کو اوسطاً 1.5 سینٹی گریڈ بڑھنے سے روکا جائے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر کے رہنما اس جانب بڑھ رہے ہیں اور یہ ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔
گلاسگو میں ہونے والی کانفرنس میں مندوبین اس بارے میں بھی مذاکرات کر رہے ہیں کہ امیر ممالک، غریب ممالک کی کتنی امداد کریں گے اور کتنی جلد یہ امداد ان تک پہنچائی جا سکتی ہے۔
جہاں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں سب سے زیادہ ہاتھ امیر ممالک کا ہے وہیں عالمی موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک، ترقی پذیر ممالک ہیں۔
سن 2009 میں امیر ممالک سے ہر برس 100 ارب ڈالر غریب ممالک کو امداد دینے کا عزم کیا تھا جس پر 2015 میں ہونے والے پیرس کلائمیٹ سمٹ میں اتفاق کیا گیا تھا، لیکن اس پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہو سکا۔