صدر جوناتھن نے کہا ہے کہ بوکو حرام کے حملوں سے عارضی طور پر کچھ مسائل پیدا ہو ئِے ہیں جو ہمارے ملک کا امتحان ہیں۔ ان حملوں سے نہ تو نائیجیریا کے لوگوں کو اور نہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے حوصلے پست ہونے چاہئیں۔’’جو کوئی بوکو حرام کی وجہ سے نائیجیریا میں آنے اور سرمایہ لگانے سے گھبرا رہا ہے، وہ بعد میں پچھتائے گا۔‘‘
صدر نے ابوجا میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بتایا کہ وہ بوکو حرام کے خطرے کے خاتمے کے لیے تیزی سے اور پوری طاقت سے فوجی کارروائی شروع کر رہے ہیں۔’’میں نائجیریا کے لوگوں کو بلکہ ساری دنیا کو اطمینان دلانا چاہتا ہوں کہ اگر چہ ہماری ٹیکنالوجی کی صلاحیت محدود ہے، لیکن نائجیریا کی سیکورٹی فورسز کا کاردگی خاصی اچھی ہے۔‘‘
نائجیریا کی ملٹری کا کہنا ہے کہ اس مہینے کے شروع میں بوکو حرام نے ملک کے شمالی علاقے میں منظم انداز سے پولیس اسٹیشنوں، چرچوں، اور فوج کے ایک اڈے پر حملے کیے ۔ اس گروپ نے اگست میں ابوجا میں اقوامِ متحدہ کے ہیڈ کواٹرز پر بمباری کی ذمہ داری کا دعویٰ بھی کیا تھا۔
عسکریت پسند کہتے ہیں کہ وہ شمال میں ایسے علاقے کے قیام کے لیے جنگ کر رہے ہیں جہاں شرعی قانون نافذ ہو۔ وہ نائجیریا کے آئین یا صدر جوناتھن کے اختیار کو تسلیم نہیں کرتے۔
مشترکہ ملٹری ٹاسک فورسز کے لیے ایک خصوصی سیکورٹی فنڈ قائم کیا گیا ہے جو تشدد کے خاتمے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت اس کمیٹی کی سفارشات سے دور جا رہی ہے جو صدر نے بوکو حرام کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے لیے قائم کی تھی۔ بورنو سٹیٹ کے سینیٹر محمد علی ندوم اس کمیٹی میں شامل تھے ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ فوجی کارروائی سے حل نہیں کیا جا سکتا ۔
’’جہاں تک طاقت کے استعمال کا تعلق ہے، تو یہ بالکل اندھیرے میں تیر چلانے کے مترادف ہے ۔ آپ کو یہ بھی نہیں معلوم کہ آپ کا دشمن کون ہے ۔لہٰذا آپ یہ بھی نہیں جانتے کہ آپ کس پر حملہ کر رہے ہیں۔ پہلے خیال یہ تھا کہ فوج کی موجودگی سے امن و امان قائم ہو جائے گا۔ لیکن اس میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔‘‘
ندوم کہتے ہیں کہ تشدد اس وقت تک جاری رہے گا جب تک بوکو حرام کو یہ احساس رہے گا کہ اس کی بات سنی نہیں جا رہی ہے ۔’’اس معاملے میں بات چیت بہت ضروری ہے، خاص طور سے جب آپ کا واسطہ ایسے گروپ سے ہے جسے آپ آسانی سے شناخت بھی نہیں کر سکتے ۔ لہٰذا پہلے ڈائیلاگ شروع ہونا چاہیئے۔ سب سے پہلے اس گروپ کی قیادت کی نشاندہی ہونی چاہیئے ۔ اس کے بعد یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ وہ چاہتے کیا ہیں اور پھر یہ دیکھنا چاہیئے کہ کیا مذاکرات کا کوئی امکان ہے ، کیوں کہ تاریخی اعتبار سے ہم جانتے ہیں کہ بغاوتوں کے مسئلے کو طاقت سے حل نہیں کیا جا سکتا ۔ اس مسئلے کا حل صرف ڈائیلاگ کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔‘‘
ندوم کہتے ہیں کہ بوکو حرام کے خطرے سے نمٹنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ غربت اور بے روزگاری کے مسائل پر توجہ دی جائے جن کی وجہ سے اس تحریک کے پھیلاؤ میں مدد ملی ہے ۔ فوٹوگرافر جان اوکیو کہتے ہیں کہ یہ مسائل ایک عرصے سے چلے آ رہے ہیں۔’’یہ گروپ کوئی آج شروع نہیں ہوا ۔ حکومت کو چاہیئے کہ وہ یہ دیکھے کہ اس مسئلے کی اصل وجہ کیا ہے۔ نائیجر ڈیلٹا کی طرح ، یہ لوگ ایک عرصے سے احتجاج کرتے رہے ہیں۔ جب تک ان لوگوں نے تشدد شروع نہیں کیا، حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔‘‘
صدر جوناتھن کہتے ہیں کہ جو لوگ بوکو حرام کی پشت پناہی کر رہے ہیں، وہ کتنے ہی اہم اور با اثر کیوں نہ ہوں، انہیں ضرور بے نقاب کیا جائے گا۔ اقتصادی ماہر پرنس اوہینی کا خیال ہے کہ اس گروپ کے حامیوں میں شمال کے کچھ سیاستداں شامل ہیں جو نائجیریا کے جنوب کے علاقے کے صدر کے مخالف ہیں۔
’’ہم جس گروپ کی بات کر رہےہیں اس کو ہدایات سیاسی قوتوں کی طرف سے ملتی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بر سرِ اقتدار ہیں۔ ان لوگوں نے بچوں کے ہاتھوں میں اسلحہ دیا ہے تا کہ وہ ان کے سیاسی مفادات کے لیے جنگ کریں۔‘‘
بزنس مین اینڈریو ادبیسی کہتے ہیں کہ تیل سے مالا مال نائجر ڈیلٹا کے وسائل کے بارے میں جنگ کے برخلاف، نائجیریا کے بیشتر لوگوں کو کچھ پتہ نہیں کہ بوکو حرام کا مطالبہ کیا ہے ۔’’میرے خیال میں خود بوکو بھی مخلص نہیں ہیں۔ انہیں کُھل کر سامنے آنا چاہیئے اور بتانا چاہیئے کہ وہ کس چیز کے لیے لڑ رہے ہیں۔ جب لوگوں نے نائجر ڈیلٹا میں جنگ کی، تو ہمیں معلوم تھا کہ ان کے مسائل کیا ہیں اور وہ کیوں لڑ رہےہیں۔‘‘
سینیٹرندوم کہتےہیں کہ ان حالات میں یہ اور بھی زیادہ اہم ہے کہ اس گروپ کے ساتھ بات چیت کی جائے کیوں کہ نائجیریا کے لوگ کسی طویل فوجی کارروائی کی حمایت نہیں کریں گے جب تک انہیں یقین نہ ہو کہ حکومت نے اس جھگڑے کو طے کرنے کے لیئے دوسرے تمام طریقے آزما لیے ہیں۔