واشنگٹن —
نائجیر کی فوج کا کہنا ہے کہ سکیورٹی افواج اور سخت گیر بوکو حرم گروپ کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں 35 افراد ہلاک ہوگئے، جِن میں زیادہ تعداد شدت پسندوں کی بتائی جاتی ہے۔
فوج کی مشترکہ ٹاسک فورس کے ایک ترجمان، صغیر موسیٰ نے بتایا کہ بوکو حرم نے اتوار کے دِن بورنو میں دو حملے کیے، جِن میں سے ایک باما کے قصبے میں واقع پولیس اڈے پر، جب کہ دوسرا مالم فتوری نامی کثیر قومی مشترکہ ٹاسک فورس کے اسٹیشن پر کیا گیا۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ باما میں ہونے والی دو بدو لڑائی میں ایک پولیس والا ہلاک جب کہ بوکو حرم سے تعلق رکھنے والے 17شدت پسند مارے گئے۔ اِس واقع میں دو فوجی زخمی ہوئے۔
اُنھوں نے بتایا کہ مالم فتوری کے مقام پر ہونے والی جھڑپ کے نتیجے میں دو فوجی اور 15شدت پسند ہلاک ہوئے۔
آزاد ذرائع سے اِن ہلاکتوں کی تصدیق نہیں ہو پائی۔
بوکو حرم کے حملوں میں آنے والی تیزی کے بعد مئی میں صدر گُڈ لک جوناتھن نے بورنو اور اس کی قریبی ریاستوں کی طرف ہزاروں کی تعداد میں اضافی فوجی روانہ کیے۔
اِن حملوں میں سے باما میں ہونے حملے میں 55 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے 30سے زائد سکیورٹی کے کارندے تھے۔
سنہ 2009سےبم دھماکوں اور گولیوں کے تبادلوں کے واقعات میں یہ بدنام شدت پسند گروہ ہزاروں افراد کو ہلاک کرچکا ہے۔
انسانی حقوق کے گروہوں نے فوجی کارروائی پر نکتہ چینی کی ہے، جو، بقول اُن کے، طاقت کا حد سے زیادہ استعمال تھا، جس کے نتیجے میں سینکڑوں ہلاکتیں واقع ہوئیں۔
فوج کی مشترکہ ٹاسک فورس کے ایک ترجمان، صغیر موسیٰ نے بتایا کہ بوکو حرم نے اتوار کے دِن بورنو میں دو حملے کیے، جِن میں سے ایک باما کے قصبے میں واقع پولیس اڈے پر، جب کہ دوسرا مالم فتوری نامی کثیر قومی مشترکہ ٹاسک فورس کے اسٹیشن پر کیا گیا۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ باما میں ہونے والی دو بدو لڑائی میں ایک پولیس والا ہلاک جب کہ بوکو حرم سے تعلق رکھنے والے 17شدت پسند مارے گئے۔ اِس واقع میں دو فوجی زخمی ہوئے۔
اُنھوں نے بتایا کہ مالم فتوری کے مقام پر ہونے والی جھڑپ کے نتیجے میں دو فوجی اور 15شدت پسند ہلاک ہوئے۔
آزاد ذرائع سے اِن ہلاکتوں کی تصدیق نہیں ہو پائی۔
بوکو حرم کے حملوں میں آنے والی تیزی کے بعد مئی میں صدر گُڈ لک جوناتھن نے بورنو اور اس کی قریبی ریاستوں کی طرف ہزاروں کی تعداد میں اضافی فوجی روانہ کیے۔
اِن حملوں میں سے باما میں ہونے حملے میں 55 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے 30سے زائد سکیورٹی کے کارندے تھے۔
سنہ 2009سےبم دھماکوں اور گولیوں کے تبادلوں کے واقعات میں یہ بدنام شدت پسند گروہ ہزاروں افراد کو ہلاک کرچکا ہے۔
انسانی حقوق کے گروہوں نے فوجی کارروائی پر نکتہ چینی کی ہے، جو، بقول اُن کے، طاقت کا حد سے زیادہ استعمال تھا، جس کے نتیجے میں سینکڑوں ہلاکتیں واقع ہوئیں۔