11ستمبر 2001 کو امریکہ پر دہشت گرد حملوں کے بیس سال بعد کسی ایسے شخص سے بات کرنا جو ان حملوں میں بچ رہا بہت اچنبھے کی بات لگتی ہے۔ اور تین ہزار کے قریب لوگوں کی ہلاکت کے اس واقعے میں محفوظ رہنے والے نیو یارک کےجان سمونئین بھی اسے کسی معجزے سے کم تصور نہیں کرتے۔ اور بیس سال بعد بھی اسے اپنی زندگی کا خوفناک ترین دن قرار دیتے ہیں۔
وائس آف امریکہ کی سونا حکوبیان سے بات کرتے ہوئے جان سمونئین نے بتایا کہ 11ستمبر 2001 کی صبح وہ معمول کے مطابق اپنے دفتر پہنچے جو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے ساؤتھ ٹاور کی 30 ویں منزل پر واقع تھا کہ اچانک انہوں نے ایک دھماکے کی آواز سنی۔ دھماکہ اتنا زوردار تھا کہ پوری عمارت لرز اٹھی۔
وہ کہتے ہیں، "یہ پہلا جہاز تھا جو شمال کی جانب دوسرے ٹاور سے ٹکرایا اور اتنے زوردار دھماکے سے کہ میں نے اسے جب 100 گز دور ایک بالکل الگ عمارت میں سنا۔ تو میرے ہاتھ سے کافی کی پیالی گرگئی۔"
وہ کہتے ہیں نارتھ ٹاور سے اٹھنے والے دھوئیں نے دوسرے ٹاور کو بھی ڈھانپ لیا اور یہ بات واضح ہو گئی کہ کچھ بہت غلط ہوا ہے۔ اپنے دفتر سے وہ دوسرے ٹاور کو نہیں دیکھ سکتا تھا مگر انہوں نے لوگوں کو عمارت سے نکل کر بھاگتے ہوئے دیکھا۔
11ستمبر 2001 کو نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر القائدہ کے دہشت گرد حملوں میں کل 2,753 لوگ موت کا شکار ہوئے تھے۔
آرمینیا نژاد امریکی جان سمونئین اس دن کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں،" اپنی کھڑکی سے ہم دیکھ سکتے تھے کہ کاغذ نیچے گر رہے تھے اور لوگ عمارت سے دور بھاگ رہے تھے۔ اور پھر مجھے دھوئیں کی بو آئی۔ میں نے اپنی بیوی شارلین کو فون کیا اور کہا میں عمارت سے باہر جا رہا ہوں اور امید ہے کہ کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، لیکن اگر کچھ ہوا تو بس ہمارے بچوں کا خیال رکھنا۔۔۔۔ بس بچوں کا خیال رکھنا۔"
سمونئین کہتے ہیں اس کے بعد جو ہوا وہ کسی معجزے سے کم نہیں۔ اپنی بیوی سے بات کر نے کے بعد وہ سیڑھیوں کی طرف بھاگے۔ 30 منزلیں بھاگتے ہوئے نیچے اترے اور ٹاور سے باہر نکل گئے۔
اس کے بعد وہ کہتے ہیں، "دوسرا جہاز میرے سر پر سے گزرا اور اس عمارت کی 75وین منزل سے جا ٹکرایا۔ میں زیادہ دور نہیں تھا اور دیکھ سکتا تھا کہ کتنا بڑا دھماکہ ہوا اور عین اس عمارت میں جہاں میں کچھ دیر پہلے موجود تھا۔ فوراً آگ بھڑک اٹھی اور میرے منہ سے بے اختیار نکلا اوہ میرے خدا “
سمونئین کہتے ہیں اگر میں اس وقت ٹاور سے باہر نہ نکلتا تو آج زندہ نہ ہوتا بلکہ اپنے ساتھ کام کرنے والے اپنے ساتھی کے ساتھ موت کا شکار ہو چکا ہوتا۔
اس المناک واقعے کو دو عشرے ہوچکے مگر اب بھی سمونئین کی طرح لوگ اسے بھول نہیں پائے۔
سمونئین کہتے ہیں وہ اکثر 9/11 میموریل جاتے ہیں اور مرنے والوں کے نام پڑھتے ہیں اور سوچتے ہیں اگر قسمت ساتھ نہ دیتی تو آج ان کا نام بھی یادگار کے ان تختوں پر لکھا ہوتا۔
یادیں۔۔۔المناک یادیں ان کے ذہن کے پردے پر چپک کر رہ گئی ہیں۔ آج بھی وہ آنکھ بند کریں تو ان کے سامنے اس دن کے تمام مناظر آجاتے ہیں۔ ان کے اردگرد اور سڑک پر گرتا ہوا ملبہ اور دھول اور غبار میں اوجھل ہوتی زندگی۔
جان سمونئین کہتے ہیں یہ سب کچھ ان کے اندر اتر چکا ہے۔۔۔" میں نہیں جانتا 20 برس میں کتنے دن ہوتے ہیں۔۔۔مگر ہزاروں مرتبہ مجھے اس کا خیال آیا ہے۔ اور وہ سب واقعات۔۔وہ اپنے اندر دکھ بھرا اور منفی احساس۔۔۔ اندر ہی اندر صدمے سے بوجھل 20 سال۔"