امریکی شہر نیویارک کے علاقے بروکلین کی رہائشی شاہانہ حنیف کو گیارہ ستمبر 2001 کے چند ہفتوں کے بعد کی وہ شام یاد ہے کہ جب وہ قریبی مسجد سے اپنی بہن کے ساتھ پیدل گھر جا رہی تھی تو ایک شخص نے ان دو بچیوں پر آوازہ کسا، ’’دہشت گرد‘‘۔
گیارہ ستمبر کو نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے ان حملوں کو بیس سال مکمل ہونے والے ہیں؛ لیکن شاہانہ حنیف کو آج بھی اپنے سہم جانے کی کیفیت اور یہ حیرانگی یاد ہے کہ کوئی کسی بچے کو کیسے اپنے لیے خطرہ سمجھ سکتا ہے؟
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ اچھے الفاظ نہیں ہیں۔ ان کے بقول، یہ الفاظ پرتشدد ہیں اور یہ خطرناک ہیں۔ ایسے الفاظ ہر اس شخص کو جو ان کا نشانہ بنے، ان کے اوسان خطا کرنے کے لیے کافی ہیں۔
لیکن، شاہانہ کے مطابق یہ واقعہ ان کے لیے اپنے اور دوسروں کے لیے آواز اٹھانے کا بھی سبب بنا۔ اور آج وہ جہاں بھی ہیں، وہ لوگوں کے لیے آواز اٹھانے کے اپنے عزم کی وجہ سے ہیں۔ وہ اپنے علاقے میں سیاسی طور پر متحرک ہیں اور امید کی جا رہی ہے کہ وہ نیویارک شہر کی میونسیپلٹی کے انتخابات میں نیویارک سٹی کونسل کی سیٹ جیت سکتی ہیں۔
شاہانہ حنیف کی طرح بہت سے امریکی مسلمان ستمبر گیارہ کے حملوں کے بعد پیدا ہونے والی معاشرتی فضا میں پلے بڑھے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے شک، عدم اعتماد، نگرانی، غصہ، ان کے مسلمان مذہب پر اٹھتے سوالات اور ان کے امریکی ہونے پر شکوک کا سامنا کیا ہے۔
اے پی کے مطابق، انہوں نے تعصب کے خلاف لڑنے اور جدوجہد کرنے کے نئے طریقے ڈھونڈے ہیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو منظم کیا ہے اور اپنی شناخت کو سمجھنے کے لیے نیا بیانیہ قائم کیا ہے۔
انہوں نے برادریوں کے مابین رشتے قائم کئے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف گھسے پٹے خیالات پر سوالات اٹھائے ہیں۔
شکاگو یونیورسٹی میں ماہر سماجیات، ایمان عبدالہادی کے مطابق ستمبر گیارہ کے حملوں کے بعد مسلمان آبادیوں میں اپنے مسلمان ہونے کی شناخت اہمیت اختیار کر گئی، مذہب سے قربت کا شناخت سے تعلق نہیں رہا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے این او آر سی سینٹر فار پبلک افیئرز ریسرچ کی جانب سے گیارہ ستمبر حملوں کے 20 سال مکمل ہونے کے موقع پر امریکہ میں ہونے والے ایک عوامی سروے کے مطابق 53 فیصد امریکی اسلام کے متعلق منفی خیالات رکھتے ہیں جب کہ 42 فیصد مثبت خیالات رکھتے ہیں۔
اے پی کے مطابق مسلمانوں کے متعلق شکوک گیارہ ستمبر حملوں سے شروع نہیں ہوئے، لیکن اس کے بعد ان میں شدت ضرور پیدا ہوئی۔
امریکی ریاست ورجینیا کی کرسٹوفر نیوپورٹ یونیورسٹی میں سیاسی علوم کے ماہر یوسف چوہود کے مطابق ملک بھر میں مسلمان آبادیاں یک دم سب کی نظروں میں آ گئیں۔
ان کے مطابق ’’آپ کا اپنے بارے میں خیال کہ آپ کیا ہیں، قائم ہو رہا تھا۔ آپ نہ صرف مسلمان ہیں بلکہ امریکی مسلمان ہیں۔‘‘ ان کے مطابق یہ سوال کہ ’’امریکی مسلمان کون ہیں۔ کیا آپ امریکی اور مسلمان ایک وقت میں ہو سکتے ہیں؟ یا کیا آپ کو یہ فیصلہ کرنا ضروری بھی ہے؟ اس سلسلے میں بہت زیادہ مکالمہ ہوا۔‘‘
شاہانہ حنیف کے کیس میں ان پیچیدگیوں سے نمٹنے کے لیے کوئی سیدھا سادہ حل موجود نہیں تھا۔
شاہانہ نے گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد کی صورت حال پر ایک مضمون میں لکھا کہ’’پانچویں جماعت میں، میں اتنی ناسمجھ یا کم عمر نہیں تھی کہ یہ جان نہ سکتی کہ مسلمان خطرے میں ہیں۔‘‘ انہوں نے لکھا کہ اپنے گھر پر امریکہ کا جھنڈا لگانے یا بروکلین میں پیدا ہونے سے میں پہلے سے زیادہ امریکی نہیں بن سکتی تھی۔
کم عمر شاہانہ نے اس وقت اپنے کزنوں اور محلے میں دوستوں کی مدد سے اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کو خط لکھا کہ وہ انہیں حفاظت فراہم کریں۔
شاہانہ نے کہا کہ ہمیں تب ہی پتا تھا کہ ہم اس کمیونٹی میں جدوجہد کرنے والے بنیں گے۔
اس رپورٹ کے لیے مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا۔