رسائی کے لنکس

طورخم کی سرحدی گزرگاہ تیسرے دن بھی بند، دو طرفہ تجارت بدستور معطل


 فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان اور افغانستان کے درمیان مصروف ترین سرحدی گزرگاہ طورخم پیر کو تیسرے روز بھی ہر قسم کی دو طرفہ تجارت کے لیے بند ہے۔

حکام کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان طورخم کے راستے دو طرفہ تجارت کی بندش کا اعلان جمعے کی رات کو کیا گیا اور اس پر ہفتے کی صبح سے عمل درآمد شروع کیا گیا ۔

اسلام آباد کی جانب سے افغانستان اور پاکستان کے درمیان تجارتی سامان سے لدی گاڑیوں کے ڈرائیوروں اور کلینیروں کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کی شرط پر عمل در آمد کے لیے اصرار کرتا رہا ہے۔

پاکستان اور افغانستان میں تجارت اور صنعتوں کی مشترکہ تنظیم کے نائب صدر اور ڈائریکٹر ضیا الحق سرحدی کا کہنا ہے کہ وہ تجارت کے سلسلے کو بحال کرنے کے لیے دونوں ممالک کے اعلیٰ حکام سے رابطے کر رہے ہیں ۔ خیبر پختونخوا حکومت نے بھی پیر کی صبح سے طورخم کی سرحدی گزرگاہ پر دو طرفہ تجارت کھولنے کے لیے وفاق سے رابطہ کیا ہے۔

ہفتے کی صبح سے طورخم گزرگاہ کے بندش کے بعد پاکستان افغانستان سرحد کے دونوں جانب تجارتی سامان سے لدے ٹرکوں کی قطاریں لگنا شروع ہو گئی تھیں۔

طورخم میں کسٹم کلیئرنگ ایجنٹ ابلان علی نے رابطے پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہفتے کی صبح جب حکومت کے احکامات پر دو طرفہ تجارت کا سلسلہ رکا تو افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان حکام نے اس پار پاکستان آنے والے پھلوں اور سبزیوں سے لدی گاڑیوں کو واپس کابل، جلال آباد اور دیگر علاقوں کی جانب روانہ کر دیا۔ پاکستان سے افغانستان جانے والی سبزیوں، پھلوں اور دیگر کھانے پینے کی اشیا سے لدے ٹرک اور ٹرالرز ابھی تک طورخم سے پشاور کے حیات آباد روڈ تک دونوں جانب کھڑے ہیں۔

شمالی وزیرستان میں افغانستان سے ملحقہ غلام خان کی سرحدی گزرگاہ دو طرفہ تجارت کے لیے کھلی ہوئی ہے۔

شمالی وزیرستان کے مرکزی شہر میران شاہ کے صحافی حاجی مجتبیٰ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ چند روز قبل حکام نے دو طرفہ تجارت میں آمد و رفت ڈرائیوروں کے لیے ویزا پاسپورٹ لازمی قرار دینے کا اعلان کیا تھا۔ مگر بعد میں اس مدت میں 31 جنوری تک توسیع کر دی گئی۔

ضیاء الحق سرحدی نے بتایا کہ طورخم کی سرحدی گزرگاہ کی بندش سے دونوں ممالک بالخصوص پاکستان کا زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان شاہراہ پر دونوں جانب سامان سے لدے ٹرک اور ٹرالرز کھڑے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ طورخم اور پشاور کے درمیان سامان سے لدے گاڑیوں کی تعداد ڈھائی سے تین ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ ان گاڑیوں میں ٹرانزٹ ٹریڈ کے ٹرک اور ٹرالرز شامل ہیں۔ دو طرفہ تجارت کی بندش سے دونوں ممالک کا نقصان ہو رہا ہے۔

خیال رہے کہ حالیہ دنوں میں جمیعت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں ایک وفد نے افغانستان کا دورہ کیا ہے۔ وہ کابل میں برسرِ اقتدار طالبان کے دعوت پر افغانستان گئے تھے۔

اس دوران وہ کابل میں اعلیٰ طالبان حکام کے علاوہ قندھار میں ان کے سپریم لیڈر ملا ہبت اللہ اخوند سے بھی ملے ہیں۔ توقع کی جا رہی تھی کہ مولانا فضل الرحمٰن کے دورۂ افغانستان سےدونوں ممالک کے درمیان غلط فہمیاں کم اور تعلقات بہتر ہوں گے۔ لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کے دورے سے ابھی تک کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے۔

طورخم کی گزرگاہ کی بندش کے بعد افغان طالبان کے ایک عہدیدار ملا عبد الجبار حکمت یار نے پاکستان کی حدود میں سیکیورٹی فورسز کے وفد سے لگ بھگ 25 منٹ تک بات چیت کی۔

پاکستانی حکام کے جاری کردہ بیان بتایا گیا ہے کہ طالبان حکام نے کہا کہ ان کی حکومت پاکستان کے ساتھ دو طرفہ تجارت اور تعلقات کو مستحکم کرنے کی خواہش مند ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے ڈرائیوروں کے لیے ویزا اور پاسپورٹ کے شرائط پر نظرِ ثانی کی درخواست کی ہے۔

پاکستانی حکام نے انہیں یقین دلایا کہ وہ ان گزارشات کو اسلام آباد میں اعلیٰ حکام تک پہنچا دیا جائے گا۔

طورخم میں کسٹم کلیئرنگ ایجنٹ ابلان علی نے بتایا کہ ابھی تک طالبان کی افغان حکومت کی اپیل پر اسلام آباد یا پشاور سے کسی قسم کا ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔

طورخم کی سرحدی گزرگاہ سے قبل بلوچستان میں چمن کی گزرگاہ بھی سرحدی پابندیوں کے نتیجے میں دوطرفہ تجارت کے لیے بند ہے۔

اسی طرح جنوبی وزیرستان کی افغانستان سے ملحقہ گزرگاہ انگور اڈہ کی دو طرفہ تجارت کے لیے بندش کو دو ماہ ہو چکے ہیں۔

طورخم کی گزرگاہ کی ھفتے کے روز سے بندش کے ردِ عمل میں طالبان حکومت نے قبائلی ضلعے کرم کے خرلاچی کی گزرگاہ کو بھی تالے لگا دی ہے۔

جنوبی وزیرستان کے ایوانِ صنعت و تجارت کے صدر سیف الرحمٰن خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انگور اڈا کی گزرگاہ 66 دن قبل بند کر دی گئی تھی ۔

انہوں نے سرحدی گزرگاہوں کی بندش پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عجیب بات یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی دو طرفہ تجارت اور آمد و رفت بند ہے جب کہ حکومتی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

دوسری جانب خیبر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور آل طورخم کسٹم ایجنٹس ایسوسی ایشن نے طورخم سرحد کی بندش کے خلاف اور مال بردار گاڑیوں کے ڈرائیوروں کے ویزوں کے معاملے پر اجلاس منعقد کیا۔

اجلاس میں طورخم سرحد کی بندش، پاسپورٹ اور ویزا مسائل، پاکستانی اداروں کی جانب سے ڈرائیوروں سے ذاتی سامان چھیننے اور مال بردار گاڑیوں کی تلاشی کے نام پر تنگ کرنے سمیت مختلف امور پر غور کیا گیا جب کہ سرحد تجارت کے لیے کھولنے کا مطالبہ کیا گیا۔

XS
SM
MD
LG