پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیکیورٹی معاملات پر کشیدگی کے بعد اب تجارتی تناؤ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی مد میں کچھ اشیا پر پابندی اور کراچی پورٹ پر سینکڑوں کنٹینرز روکے جانے کا معاملہ دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ سرد مہری کی وجہ بنا رہا ہے۔
اسی دوران افغانستان میں طالبان حکومت کے نائب وزیرِ اعظم برائے اقتصادی امور ملا عبدالغنی برادر نے رواں ماہ ایران کا دورہ کیا اور ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کا جائزہ لیا۔
ملا غنی برادر نے ایرانی وزیرِ خارجہ اور وزیرِ داخلہ سے بھی ملاقاتیں کیں اور ٹرانزٹ ٹریڈ کے لیے ایران سے تعاون کی درخواست کی ہے۔
افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا مسئلہ ہے کیا؟
چاروں طرف خشکی میں گھرے افغانستان کے لیے بیرونی دنیا سے سمندری راستے کے ذریعے تجارت ہمسایہ ملکوں کی بندرگاہوں پر ہی منحصر ہے۔ اس ضمن میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان 1965 سے معاہدے ہوتے رہے ہیں۔
اکتوبر 2010 میں ہی اسی نوعیت کا ایک معاہدہ 'افغانستان، پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ' کے نام سے کیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت افغانستان نے پاکستان کے راستے دنیا سے برآمدات اور درآمدات جاری رکھیں۔ اس دوران مختلف اوقات میں پاکستان کی جانب سے خدشات کا اظہار کیا گیا کہ اس معاہدے کا فائدہ اٹھا کر اسمگلرز پاکستانی معیشت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
حال ہی میں جب پاکستان میں معاشی بحالی کے لیے اقدامات اٹھائے جا رہے تھے تو ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ پر بھی غور و حوض کیا گیا۔
گزشتہ ماہ تین اکتوبر 2023 کو ہی وزارتِ تجارت اور وزارتِ خزانہ کے ذیلی اداروں کی جانب سے پاک افغان سرحد پر ہونے والی اسمگلنگ پر قابو پانے کے لیے 212 ایسی اشیا پر پابندی لگا دی گئی جس کے حوالے سے پاکستانی حکام نے دعویٰ کیا کہ انہیں پاکستان اسمگل کیا جاتا تھا۔
'اسمگلنگ تو ہوتی رہی ہے'
کراچی میں موجود پاک، افغان تجارتی امور پر گہری نظر رکھنے والے سینئر صحافی وکیل الرحمٰن سمجھتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کو کچھ مفاد پرست عناصر اسمگلنگ کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں جس سے پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچا۔
اُن کے بقول افغانستان میں چائے کی پتی کا استعمال کم ہوتا ہے، لہذٰا افغانستان کے نام پر منگوائی گئی چائے کی پتی کا بڑا حصہ اسمگل ہو کر پاکستان پہنچ جاتا ہے۔ اسی طرح ٹائر اور خشک میوہ جات جن کی افغانستان میں کوئی کمی نہیں، وہ بھی ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے افغانستان پہنچ کر دوبارہ پاکستان اسمگل ہوتے رہے ہیں۔
وکیل الرحمٰن کہتے ہیں کہ جب پاکستان شدید معاشی بحران کا شکار تھا تو اس وقت پاکستان نے ڈالرز کے ملک سے انخلا کو روکنے کے لیے کچھ درآمدات پر پابندی لگائی۔ اس کے باوجود افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے وہ اشیا پاکستان پہنچنے لگیں اور اس کی ادائیگی کی شکل میں ڈالرز کا انخلا جاری رہا۔ اس کے بعد حکومت پر پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے حوالے سے دباؤ مزید بڑھ گیا۔
پاکستان کی جانب سے ان فیصلوں کے باعث افغان حکام کے مطابق تین ہزار کے لگ بھگ کنٹینرز کراچی کی بندرگاہ پر پھنس گئے۔ یہی وجہ تھی کہ 14 نومبر 2023 کو اس مسئلے پر بات کرنے کے لیے طالبان حکومت کے وزیر صنعت و تجارت حاجی نور الدین عزیزی پاکستان پہنچے۔
انہوں نے پاکستان کے نگراں وزیرِ خارجہ جلیل عباس جیلانی سے اسلام آباد میں ملاقات کی۔ افغان سفارت خانے کی جانب سے ایک بیان بھی جاری کیا گیا جس کے مطابق "ملاقات میں دو طرفہ تجارت، کراچی میں موجود افغان تاجروں کے سامان اور افغان مہاجرین سے متعلقہ اُمور پر بات کی گئی۔"
کیا طالبان حکام کے دورے کا فائدہ ہوا؟
سترہ نومبر 2023 کو پاکستان کی وزارتِ تجارت کی جانب سے ایک مراسلہ جاری کیا گیا کہ جس میں واضح طور پر ذکر کیا گیا کہ 15 اور 16 نومبر کو طالبان حکومت کے وزیرِ صنعت و تجارت کے دورے کے بعد جذبہ خیر سگالی کے تحت صرف ایک بار ہی کراچی پورٹ پر پھنسے کنٹینرز کو افغانستان روانگی کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔
ان کنٹینرز کو 10 فی صد پراسیسنگ فیس سے بھی استثناٰ دے دیا گیا اور بینک گارنٹی کے بجائے پرانی انشورنس پالیسی کے تحت انہیں کلیئر کیا جائے گا۔ البتہ جن اشیا پر پابندی ہے وہ اشیا بدستور کراچی پورٹ پر ہی رہیں گی۔
افغان تاجر خان جان الکوزی پاکستان، افغانستان مشترکہ چیمبر آف کامرس کے رہنما ہیں۔ وہ مسلسل کراچی پورٹ پر پھنسے ان کنٹینرز کو درپیش رکاوٹوں کے حوالے سے آواز اٹھاتے رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ "یہ ایک خوش آئند فیصلہ ہے۔ لگ بھگ تین ہزار کنٹینرز کراچی پورٹ پر پھنسے ہوئے تھے۔ اس سے نہ صرف افغان تاجروں بلکہ پاکستانی ٹرانسپورٹرز کا بھی نقصان ہو رہا تھا۔"
ماہرین کہتے ہیں کہ مستقبل میں پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا کیا ہو گا اس حوالے سے یقینی طور پر کچھ بھی کہنا ممکن نہیں ہے۔ وقتی طور پر کسی حد تک یہ مسئلہ ضرور حل ہوا ہے۔ لیکن اس طرح کے مسائل کے باعث افغان تاجر آہستہ آہستہ اپنی امیدیں ایرانی بندرگاہ چاہ بہار سے بڑھا رہے ہیں۔
افغان طالبان کا چاہ بہار بندرگاہ کی طرف جھکاؤ کیوں؟
افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے علاوہ بھی پاک افغان تعلقات میں کھچاؤ کے باعث وقتاً فوقتاً پاک افغان بارڈر کراسنگ بند رہتی ہے۔ حال ہی میں ویزا پالیسی کے باعث چمن بارڈر کراسنگ پر مسلسل احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔
یہی وجہ تھی کہ افغان نائب وزیرِ اعظم ملا برادر نے رواں ماہ خصوصی طور پر چاہ بہار کا دورہ کیا۔ اس موقع پر ان کی وزارت کی جانب سے میڈیا کو بیان جاری کیا گیا کہ "کم قیمت اور کم وقت کے باعث چاہ بہار بندرگاہ افغانستان کی ٹرانزٹ ٹریڈ اور برآمدات کے حوالے سے عالمی منڈیوں تک رسائی کے لیے اہم ہے۔
انہوں نے ایرانی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ افغانستان کو چاہ بہار بندرگاہ پر سہولیات فراہم کرے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ ایرانی حکام نے ان کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اس سلسلے میں تعاون کریں گے۔
کیا چاہ بہار پورٹ کراچی بندرگاہ کی متبادل ہو سکتی ہے؟
سرحد چیمبر آف کامرس کے رہنما اور چیمبر کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے وسط ایشیا کے سربراہ شاہد حسین کہتے ہیں کہ چاہ بہار بندرگاہ کراچی پورٹ کا نعم البدل نہیں بن سکتی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ "ایران کے قریب افغان صوبے فراہ یا ہرات کے علاوہ افغانستان کے دیگر صوبوں کو کراچی قریب پڑتا ہے۔ اس طرح تاجروں کو چاہ بہار مہنگا پڑتا ہے۔ پھر سب سے بڑھ کر پاکستان کے پاس ٹرانزٹ کے تین راستے ہیں طورخم، غلام خان اور چمن جو افغانستان کے مشرق، مرکز اور جنوب کے ساتھ ساتھ شمال کو قریب اور سستے ترین روٹس فراہم کرتے ہیں۔
شاہد حسین کے بقول فی الحال تجارت کے لیے افغانستان کے لیے کراچی پورٹ ہی موزوں ہے کیوں کہ چاہ بہار کے ذریعے تجارت کی صورت میں فی کنٹینر لاکھوں افغانی خرچہ بڑھ جائے گا۔
افغان تاجر کیا سوچتے ہیں؟
افغان تاجر رہنما جان الکوزی کہتے ہیں کہ کراچی کی بندرگاہ ہر لحاظ سے افغان تاجروں کے لیے نزدیک اور سستی ہے۔ لیکن جب پابندیاں لگیں گی تو پھر متبادل کے بارے میں سوچنا پڑے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ جب زیادہ پابندیاں لگیں گی تو پھر متبادل روٹس ہی ہماری مجبوری ہوں گے کیوں کہ کراچی پورٹ پر روکی گئی اشیا زیادہ دیر تک نہیں چھوڑ سکتے۔ مجبوری کی حالت میں ہی ہم چاہ بہار بندرگاہ کی طرف اپنی تجارت کا رخ کریں گے۔
ماہرین کے مطابق کراچی افغان تاجروں کے لیے اس لحاظ سے بھی موزوں ہے کیوں کہ افغانستان کے ایران کے ساتھ تعلقات میں بھی اُتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل پانی کی تقسیم کے معاملے پر بھی اختلافات نے سر اُٹھایا تھا جب کہ سرحد پر بھی دونوں ملکوں کے درمیان وقتاً فوقتاً جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔
ایران پر عالمی پابندیاں اور مواقع
صحافی وکیل الرحمٰن کہتے ہیں کہ ایران پر عالمی پابندیاں ہیں جس کی وجہ سے لین دین کے معاملات میں رکاوٹیں آ سکتی ہیں۔ لہذٰا کراچی کے مقابلے میں چاہ بہار بندرگاہ پر انحصار قبل ازوقت ہو گا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ایران عالمی پابندیوں کی وجہ سے افغانستان اور وسطی ایشیائی ملکوں کے ساتھ تجارت کے لیے انفراسٹرکچر بنانے پر زور دے رہا ہے۔ اس ضمن میں ریلوے لائنز کا جال بھی بچھایا جا رہا ہے۔
ایرانی ریلوے حکام نے حال ہی میں افغانستان کا دورہ بھی کیا تھا تاکہ تعمیراتی کام اور سرحد پار سے افغانستان ریلوے کے ساتھ مزید تعاون پر بات چیت کی جا سکے۔
ماہرین کے مطابق مال بردار اور مسافر ٹرینوں دونوں کے ذریعے استعمال ہونے والی خواف-ہرات لائن افغانستان کو سمندری بندرگاہوں اور پڑوسی ممالک تک رسائی فراہم کرے گی جس سے وسطی ایشیا، روس، ترکیہ اور یورپ کے ساتھ بھی تجارت کے مواقع ملیں گے۔
تاہم مبصرین کا ماننا ہے کہ پورے افغانستان میں ریلوے نظام کی عدم موجودگی کے باعث ایران افغان بارڈر خصوصاً ہرات صوبے تک تو اس منصوبے کی افادیت ہے، لیکن دُوردراز علاقوں سے اسے لنک کرنا اب بھی مشکل ہے۔
ایسے میں ماہرین کے مطابق پاکستان کے ساتھ افغانستان کی تین مرکزی سرحدی گزرگاہیں اور سڑکوں کا جال ہی فی الحال افغان تاجروں کے لیے سودمند ہے۔
فورم