امریکہ کےخفیہ ادارے کے سربراہ جان برنینن کا کہنا ہے کہ "ایسے کوئی شواہد موجود نہیں ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہوکہ سعودی عرب نے 11 ستمبر 2001 میں نیویارک اور واشنگٹن میں ہوئے القاعدہ کے دہشت گرد حملوں میں معاونت کی تھی۔"
سعودی عرب کے مبینہ طور ان حملوں میں ملوث ہونے سے متعلق قیاس آرائیوں کی بنا پر کانگرس کے کچھ ارکان نے نائن الیون کے متعلق کانگرس کی تحقیقاتی رپورٹ کے مخفی رکھے گئے 28 صفحات جاری کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
ان مخفی رکھے گئے 28 صفحات کا محور سعودی عرب اور اس کا مبینہ طور پر (ان حملوں میں) ملوث ہونا ہے۔
سی آئی اے کے ڈائریکٹر برنینن نے امریکی ٹی وی 'این بی سی' کے پروگرام 'میٹ دی پریس آن سنڈے' کو بتایا کہ ان صفحات میں موجود معلومات کی "نا تو تصدیق ہوئی ہے، نا ہی ان کا جائزہ لیا گیا نا ہی یہ درست معلوم ہوتی ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ کانگرس کے پینلز نے "بہت ہی واضح فیصلہ دیا کہ ایسے کوئی شواہد موجود نہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب کی حکومت بطور ادارہ یا سعودی عہدیداروں نے انفرادی حیثیت میں القاعدہ کو مالی معاونت فراہم کی ہو۔"
برنینن نے کہا کہ رپورٹ کے 28 صفحات کو اس لیے عوام کے سامنے نہیں لایا گیا کیونکہ ان کی تحقیق میں حساس ذرائع کو استعمال کیا گیا ہے۔
انہوں نے یہ بات خصوصی فورسز کے آپریشن میں القاعدہ کے رہنما کی پاکستان میں ہلاکت کی پانچویں برسی سے ایک دن پہلے کہی۔
صدر براک اوباما نے امریکی نشریاتی ادارے 'سی این این' کے ساتھ ریکارڈ ہونے والے ایک انٹرویو میں کہا کہ انہوں نے اس وقت یہ آپریشن کرنے کا اس لیےحکم دیا کیونکہ "اگر ہم یہ کارروائی نا کرتے تو وہ فرار ہو جاتے اور پھر ان کے دوبارہ منطر عام پر آنے میں کئی برس لگ جاتے۔"
اُسامہ بن لادن دنیا کا سب سے زیادہ مطوب شخص تھا جس کی تنظیم القاعدہ کے دہشت گردوں نے نیوریارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور واشنگٹن کے قریب واقع پینٹاگان کی عمارت سے جہاز ٹکرا دیئے تھے جس سے تین ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ہائی جیک ہونے والا تیسرا طیارہ بھی واشنگٹن کی طرف محو پرواز تھا۔ تاہم اس کے مسافروں نے دہشت گردوں پر قابو پالیا لیکن یہ جہاز پینسلوینیا کے علاقے میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔
اوباما نے کہا کہ خصوصی آپریشن کے دوران اُسامہ کو ہلاک کرنے سے کچھ لمحے پہلے "شاید اسی لمحے (اُسامہ بن لادن) کو حساس ہوا ہو گا کہ امریکی عوام ان 3,000 لوگوں کو نہیں بھولے جن کو انہوں نے ہلاک کیا تھا۔"