وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ وہ اس بات کی تصدیق نہیں کر سکتا کہ اردن کی طرف سے شدت پسند گروپ داعش کے خلاف کی گئی فضائی کارروائی میں مغوی بنائی گئی امریکی خاتون امدادی کارکن بھی ہلاک ہوئیں یا نہیں۔
قومی سلامتی کونسل کی مشیر برنڈیٹ میہان کا کہنا تھا کہ "ہمیں ان اطلاعات پر گہری تشویش ہے۔ فی الحال ہم نے ایسے کوئی شواہد نہیں دیکھے جس سے داعش کے دعوے کی تصدیق ہو سکے۔"
اردن کے عہدیداروں نے اس دعوے کو داعش کا "مجرمانہ پروپیگنڈا" قرار دیا ہے۔
وزیرخارجہ ناصر جودہ نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہا کہ "یہ دہشت گردوں اور اور مظالم ڈھانے والوں کو پرانا دقیانوسی حربہ ہے۔۔۔یہ دعویٰ کرنا کہ انسانی ڈھال بنائے گئے مغوی فضائی حملوں میں مارے گئے۔"
اردن نے اپنے ایک مغوی پائلٹ کی داعش کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد شام میں اس شدت پسند گروپ کے خلاف فضائی کارروائیاں شروع کی تھیں۔
مغوی امریکی خاتون امدادی کارکن کا نام اس کے خاندان نے کائیلا میولر بتایا ہے اور ان کا تعلق اریزونا سے ہے۔ انھیں جاننے والوں کا کہنا ہے کہ وہ جنگ اور شدت پسندی میں پھنسے شہریوں کی تکالیف سے بہت متاثر ہوئیں۔
کائیلا شام کے علاوہ امدادی گروپس کے ساتھ مغربی کنارے اور بھارت میں بھی کام کر چکی ہیں۔
داعش کا کہنا تھا کہ کائیلا شام کے شہر رقع میں اس وقت ہلاک ہوگئیں جب اردن کے طیاروں نے اس عمارت پر بمباری کی جہاں انھیں یرغمال بنا کر رکھا گیا تھا۔
شدت پسندوں نے انھیں 2013 میں حلب سے اس وقت اغوا کیا تھا جب وہ ایک اسپتال سے کام ختم کر کے نکل رہی تھیں۔