پاکستان کا کہنا ہے کہ بھارت نے پلوامہ خود کش حملے سے تعلق کے سلسلے میں پاکستان کو بھیجے گئے ڈوزیئر میں جن 22 مقامات پر دہشت گردی کیمپوں کی نشاندہی کی تھی، اُن تمام مقامات پر کسی بھی قسم کے دہشت گردی کیمپوں کا کوئی سراغ نہیں ملا۔
14 فروری کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے قصبے پلوانہ میں خود کش حملے میں بھارتی فوج کے 40 اہل کار ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری ’’جیش محمد‘‘ نامی ایک کالعدم دہشت گرد گروپ نے قبول کی تھی، جس کے بعد بھارت نے پاکستان کو اس حملے کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔
وزیر اعظم عمران خان نے بھارت کو یہ پیشکش کی تھی کہ اگر وہ قابل عمل ثبوت فراہم کرے تو پاکستان اس کی تحقیقات میں بھرپور تعاون کرے گا۔
بھارت نے گزشتہ ماہ پاکستان کو ایک ڈوزیئر بھیجا تھا جس میں اس کے مطابق وہ تمام شواہد پیش کئے گئے تھے جن کی بنیاد پر بھارت یہ خیال کرتا ہے کہ حملے کی منصوبہ بندی کے لئے پاکستان کی سرزمین استعمال کی گئی تھی۔
پاکستان کی سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے بدھ کو اسلام آباد میں بھارت کے سفیر اجے بساریا کو بلا کر اس ڈوزیئر کے حوالے سے تحقیقات کی ابتدائی رپورٹ اُنہیں دیتے ہوئے مزید ثبوت فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق ڈوزیئر میں بھارت نے پاکستان میں 22 مقامات کی نشاندہی کی تھی جہاں بقول اُس کے دہشت گردی کے کیمپ موجود ہیں۔ تاہم پاکستان کا کہنا تھا کہ اُن مقامات کا بھرپور جائزہ لیا گیا ہے اور وہاں دہشت گردی کے کیمپوں کے کوئی آثار نہیں پائے گئے ہیں۔
پاکستان کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ اگر بھارت نے درخواست کی تو وہ بھارتی نمائندوں کو اُن مقامات کا دورہ کرانے کے لئے تیار ہے۔
پاکستان نے بھارت کو مزید بتایا ہے کہ اس ڈوزیئر کی بنیاد پر پاکستانی حکام نے 54 افراد کو حراست میں لے کر اُن سے پوچھ گچھ کی۔ تاہم اُن کا پلوامہ حملے سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوا۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ بھارت کی طرف سے فراہم کردہ ڈوزیئر کا پوری سنجیدگی سے جائزہ لیا گیا ہے جس میں عادل ڈار نامی شخص کی طرف سے ایک ویڈیو میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ بھی شامل ہے
پاکستانی دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق اس ویڈیو کو WhatsApp اور سماجی رویوں کی دوسری ویب سائٹس پر شیئر کرنے والوں اور پلوامہ حملے کی حمایت کرنے والوں کی طرف سے استعمال کئے گئے افراد کے فون نمبر بھی فراہم کئے گئے اور ’’جیش محمد‘‘ سے تعلق رکھنے والے 90 افراد کی نشاندہی بھی کی گئی تھی۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ اُن لوگوں کے بارے میں کوائف اکٹھے کئے جا رہے ہیں اور WhatsApp سے بھی مدد کے لئے کہا گیا ہے۔
تاہم پاکستان نے اس معاملے کی مزید چھان بین کے لئے بھارت سے مزید معلومات اور ثبوت طلب کئے ہیں۔
بھارت کا ردعمل
بھارت نے پلوامہ خودکش حملے سے متعلق پاکستان کے بھیجے گئے ڈوزئیر کے جواب پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
بھارت کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ بھارت کو سرحد پار سے جیش محمد کے پلوامہ پر دہشت گرد حملے اور پاکستان میں ان کے کیمپوں اور قیادت کی موجودگی سے متعلق تفصیلی ڈوزیئر پر پاکستان کے جواب سے مایوسی ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان مسلسل انکار کر رہا ہے اور حتی کہ وہ پلوامہ حملے کو دہشت گردی کا واقعہ بھی تسلیم نہیں کرتا۔ اس نے اپنے علاقے میں دہشت گردوں یا دہشت گرد گروپس کے خلاف اپنی جانب سے کئے گئے کسی ٹھوس اقدام سے متعلق معلومات کا تبادلہ بھی نہیں کیا۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس پر حیرت ہوئی ہے کہ پاکستان کا جواب ماضی میں 2008 کے ممبئی حملوں اور 2016 میں پٹھان کوٹ حملے سے متعلق اس کے دیے گئے جواب کی ہوبہو نقل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو 2004 کے اپنے وعدوں کی پاس داری کرنی چاہیے اور اسے اپنے علاقے سے کارروائیاں کرنے والے دہشت گرد گروپس کے خلاف فوری، ٹھوس اور ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن کی تصدیق کی جا سکے۔