پاکستان میں بجلی کا جانا ایک عام سی بات ہے، ادھر آسمان پر بادل گرجتے ہیں اور بجلی چمکتی ہے، ادھر بجلی غائب اور گھروں کی روشنیاں گل ہو جاتی ہیں۔ موسم کے تیور نہ بھی بگڑیں تب بھی بجلی کی آنکھ مچولی جاری رہتی ہے۔ کبھی لوڈشیدنگ، کبھی پاور شیئرنگ، کبھی ڈیموں میں پانی کی کمی، کبھی ڈیزل کی قلت، کبھی لائنوں پر بوجھ، کبھی سالانہ مرمت، کبھی یہ بہانہ اور کبھی وہ عذر، اور کبھی تو بجلی بلا سبب ہی چلی جاتی ہے۔
جب بہاول پور میں تھا تو سنتے تھے کہ اسلام آباد میں بجلی نہیں جاتی۔ لیکن جب اسلام آباد آئے تو پتا چلا کہ یہ خبر کچھ ایسی صحیح بھی نہیں ہے۔ ایک بار تین گھنٹے بارش ہوئی، بجلی ایسی روٹھی کہ پورے تین دن کے بعد لوٹی۔
امریکہ آتے ہوئے ذہن میں یہ تھا کہ دنیا کا سب سے ترقی یافتہ ملک ہے، وہاں بجلی کاہے کو جاتی ہو گی، اور وہ بھی خاص طور پر واشنگٹن میں، جسے کئی لوگ تو دنیا کا دارالحکومت سمجھتے ہیں۔ مگر یہاں بھی ایسا نہیں ہے۔
یہاں بھی کبھی کبھار اور وہ بھی خاص طور پر سردیوں کے جوبن میں، جب موسم بہت خفا ہو جائے اور چہارسو برف کی موٹی تہیں بچھ جائیں، یا سمندری طوفان بپھر کر آبادیوں میں گھس آئیں تو پھر بجلی کے جانے کا حق تو بنتا ہے۔ لیکن ایسا زیادہ بڑے علاقے میں نہیں ہوتا۔ تاہم یہاں جب بجلی جاتی ہے تو خود ہی جلد لوٹ آتی ہے، اس کی منت سماجت نہیں کرنی پڑتی۔
لیکن اس بار حیرت انگیز طور پر شمالی کیلی فورنیا میں بجلی لمبی مدت کے لیے گئی ہے۔ وہاں 15 لاکھ کی آبادی کے لیے جمعرات تاریکی کا مسلسل دوسرا دن تھا۔ ایک ایسی دنیا میں، جہاں روزگار حیات بجلی پر چلتا ہو، جہاں چولہے سے لے کر گھر کو ٹھنڈا گرم کرنے، دفتر، کاروبار، حتی کہ موٹر گاڑیوں کو بھی سٹرکوں پر دوڑانے کے لیے بجلی درکار ہو، وہاں جب دنوں کے لیے بجلی کے کھنبے اور تاریں برقی لہروں سے محروم ہو جائیں، تو سوچیں لوگوں پر گیا گزرتی ہو گی۔
شمالی کیلی فورنا کے ایک قصبے اوکلینڈ کی ٹیانا پاشے کہتی ہیں کہ صورت حال بہت ڈراونی ہے۔ اگر پتہ ہو کہ بجلی کب تک نہیں آئے گی تو ہم اس عرصے کے لیے بچوں کو لے کر کہیں اور چلے جائیں۔
ایک اور خاتون مارینا کا کہنا تھا کہ والدین کے طور پر یہ ہماری زندگی کی سب سے زیادہ تکلیف دہ صورت حال ہے۔
اوکلینڈ وہ علاقہ ہے جہاں 1991 میں جنگل میں بھڑک اٹھنے والی آگ سے 25 افراد ہلاک اور ہزاروں گھر جل کر راکھ بن گئے تھے۔ اس علاقے میں اکتوبر کے مہینے میں موسم خشک ہوتا ہے۔ اتنا خشک کہ ذرا سی رگڑ سے جنگل میں آگ لگ جاتی ہے۔ بجلی کی بندش کا تعلق بھی آگ کے خطرے سے ہے۔
اوکلینڈ کے شمال میں واقع وائن کاؤنٹی کے جوزف پوکورسکی کہتے ہیں کہ آج حسب معمول صبح کے وقت میں اسٹور سے کافی خریدنے کے لیے اپنے گھر سے نکلا۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ اگر بجلی نہیں ہو گی تو کافی بھی نہیں ملے گی بلکہ کافی تو کیا، کچھ اور بھی نہیں ملے گا۔ پاور کمپنی نے اچھا نہیں کیا۔
شمالی کیلی فورنیا کی پاور کمپنی پیسفک گیس اینڈ الیکٹرک کا کہنا ہے کہ ہم نے لوگوں کی بھلائی کے لیے بجلی بند کی ہے۔ موسمیات کے محکمے نے طوفانی جھکڑ چلنے کی پیش گوئی کر رکھی ہے، جن کی رفتار 110 کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہو سکتی ہے۔
اس پہاڑی علاقے میں ان دنوں موسم بہت خشک ہے، جنگل اور پودے اتنے خشک ہو چکے ہیں کہ انہیں جلنے کے لیے بس بہانہ چاہیے۔ ان دنوں اکثر علاقوں میں خزاں ہے اور تیز ہوائیں خشک پتوں کو اڑاتی پھر رہی ہیں۔ ماضی میں ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں کہ بجلی کی تاروں کے آپس میں ٹکرانے یا تاروں اور ٹرانسفارمرز کے جوڑوں میں بننے والے کاربن میں حرارت پیدا ہونے سے چنگاریاں نکلیں اور پھر آگ بھڑک اٹھی۔
پچھلے دو سال کے دوران خشک موسم میں بجلی کی تاروں کی رگڑ نے ایسی قیامت کی آگ بھڑکائی تھی کہ سان فرانسسکو کے ساحلی علاقے میں 85 افراد ہلاک ہو گئے اور پیراڈائز نامی قصبہ مکمل طور پر جل گیا تھا۔ اس کے بعد لوگوں کی طرف سے معاوضے کے لیے دائر کیے جانے والے مقدموں سے پاور کمپنی تقریباً دیوالیہ ہو گئی تھی۔ اس لیے اس بار کمپنی کے عہدے دار بہت محتاط ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ تیز ہواؤں کا خطرہ ٹلنے تک وہ بجلی بحال نہیں کریں گے۔
پاور کمپنی کے ایک عہدے دار سومیت سنگھ نے اے پی کو بتایا کہ ان کے 8000 کارکن ٹرانسفارمز اور تاروں کا کاربن صاف کر رہے ہیں اور کھنبوں کی بجائے بجلی کی سپلائی لائنز کو زیر زمین منتقل کر رہے ہیں جس سے مستقبل میں صورت حال کنٹرول میں رہے گی۔