شمالی کوریا نے امریکہ کے ساتھ جوہری مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی پیشکش کی ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی شمالی کوریا نے منگل کے روز میزائل کا ایک اور تجربہ بھی کیا ہےجس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شمالی کوریا دباؤ ڈالنے کی اپنی کوششیں جلد ترک کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔
امریکی اہل کاروں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر واپسی کی پیشکش کے چند ہی گھنٹوں بعد شمالی کوریا نے میزائل کا تجربہ کیا جو مئی سے اب تک اس کا دسواں تجربہ ہے۔
جنوبی کوریا کی فوج کا کہنا ہے کہ دو میزائل 330 کلو میٹر کے فاصلے تک داغے گئے جو مختصر فاصلے کا ایک اور میزائل تجربہ ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ شمالی کوریا کی مذاکرات کی میز پر واپسی کی پیشکش کو محتاط انداز میں قبول کریں گے۔ خود صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یہ پیشکش کچھ ہی وقت پہلے موصول ہوئی ہے۔ لہذا وہ حالات کا جائزہ لے کر کوئی فیصلہ کریں گے۔
مذاکرات اس وقت تعطل کا شکار ہو گئے تھے جب اس سال فروری میں صدر ٹرمپ اور شمالی کوریا کے لیڈر کم جونگ اُن کے درمیان دوسری سربراہ ملاقات بغیر کسی نتیجے پر پہنچے ختم ہو گئی تھی۔
اس کے بعد جون میں ہونے والی ایک ملاقات میں صدر ٹرمپ اور کم جونگ اُن نے عمومی سطح پر بات چیت دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ تاہم شمالی کوریا کے اہل کار اس ملاقات کے لئے نہیں پہنچے تھے۔ اور یہ بات واضح نہیں ہے کہ آیا دونوں میں سے کسی بھی فریق نے اپنے مؤقف میں نرمی پیدا کی ہے یا نہیں۔
جنوبی کوریا کے دارالحکومت سول سے سیاسی تجزیہ کار جون پارک کہتی ہیں کہ یہ واضح نہیں ہے کہ اس ملاقات سے کیا نتیجہ برآمد ہو گا کیونکہ شمالی کوریا امریکہ سے جس قسم کی توقعات رکھتا ہے وہ پوری ہونے کی توقع کم ہی ہے۔
صدر ٹرمپ نے مختصر فاصلے تک مار کرنے والے میزائل کے اس تجربہ کو بڑی حد تک نظرانداز کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے کم جونگ اُن کے جوہری اور طویل فاصلے کے میزائلوں کا تجربہ نہ کرنے کے وعدے کی نفی نہیں ہوتی۔