شمالی کوریا کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ ملک میں کرونا وائرس کا اب تک کوئی کیس سامنے نہیں آیا ہے۔ لیکن حیران کن طور پر پیانگ یانگ نے کرونا کی ویکسین بنانے کا اعلان کیا ہے۔
امریکہ، برطانیہ، چین اور دنیا کے کئی دیگر ملکوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سے کرونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین کی تیاری اور اس کے ٹرائلز کا سلسلہ جاری ہے۔
شمالی کوریا کے سرکاری کمیشن برائے سائنس و ٹیکنالوجی نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ ملک میں کرونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین کے کلینیکل ٹرائلز کا سلسلہ جاری ہے اور اس کی انسانوں پر آزمائش شروع کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کرونا کا کوئی کیس نہ ہونے کے باوجود ویکسین کی تیاری کے ذریعے شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان شاید اپنے عوام اور دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ ہر طرح کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔
البتہ بعض ناقدین شمالی کوریا کی جانب سے ویکسین کی تیاری کے اعلان کو پروپیگنڈا قرار دے رہے ہیں۔
رواں سال کے آغاز میں چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والی کرونا کی عالمی وبا سے اب تک دنیا میں ایک کروڑ 45 لاکھ سے زائد افراد متاثر جب کہ چھ لاکھ اموات ہوچکی ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا جیسے ملک میں جس کا صحتِ عامہ کا نظام دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے بہت پیچھے ہے، کسی کامیاب ویکسین بننے کے امکانات بہت کم ہیں۔
شمالی کوریا کا شمار دنیا کے اُن کے ممالک میں ہوتا ہے جن کے بارے میں خدشہ تھا کہ اگر وہاں کرونا کی وبا پھیلی تو صحتِ عامہ کی ناکافی سہولتوں کی وجہ سے اسپتال زیادہ مریضوں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکیں گے۔ اطلاعات کے مطابق شمالی کوریا کے کئی اسپتالوں میں بجلی جیسی بنیادی سہولتیں تک موجود نہیں ہیں۔
شمالی کوریا میں عالمی ادارۂ صحت کے نمائندے کے مطابق ڈھائی کروڑ آبادی والے شمالی کوریا میں جولائی کے آغاز تک کرونا کی تشخیص کے صرف 922 ٹیسٹ کیے گئے تھے۔
عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ وبا کے آغاز سے اب تک 25 ہزار سے زائد افراد کو وائرس میں مبتلا ہونے کے شبہے میں قرنطینہ کیا گیا جب کہ 255 افراد تاحال قرنطینہ میں ہیں۔
بعض ماہرینِ صحت کا خیال ہے کہ کرونا کا کوئی کیس نہ ہونے کے شمالی کوریا کے دعوے درست نہیں ہیں کیوں کہ تیزی سے پھیلنے والا یہ وائرس دنیا کے تقریباً ہر ملک کو متاثر کر چکا ہے۔
کم جونگ ان نے رواں ماہ کے آغاز پر اعلان کیا تھا کہ شمالی کوریا نے وبا سے نمٹنے میں شان دار کامیابی حاصل کی ہے۔ ساتھ ہی اُنہوں نے محکمۂ صحت سے کہا تھا کہ وہ اس کے باوجود الرٹ رہے۔