شمالی کوریا نے اتوار کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے راکٹ کا تجربہ کیا جس کے بارے میں بین الاقوامی برادری کی اکثریت کو شبہ ہے کہ یہ ممنوعہ میزائل ٹیکنالوجی کی مدد سے کیا گیا ہے۔
اوائل ہفتہ شمالی کوریا نے اعلان کیا تھا کہ وہ مدار میں ایک سیٹیلائیٹ بھیجنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔
امریکی محکمہ دفاع کے ایک عہدیدار نے میزائل چھوڑے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ امریکہ صورتحال کا جائزہ لے رہا ہے۔
گزشتہ ماہ ہی شمالی کوریا نے جوہری تجربہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے ہائیڈروجن بم کی ٹیکنالوجی حاصل کر لی ہے، لیکن امریکہ اور دیگر ممالک اس دعوے سے اتفاق نہیں کرتے۔
امریکہ کی قومی سلامتی کی مشیر سوزن رائس نے ایک بیان میں میزائل تجربے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ قابل مذمت ہے کہ شمالی کوریا اپنے عوام کی فلاح و بہبود کی بجائے اپنے میزائل اور جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو ترجیح دے رہا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے ایک بیان میں کہا کہ "یہ تقریباً ایک ہی ماہ کے عرصے میں دوسرا موقع ہے کہ شمالی کوریا نے بڑی اشتعال انگیزی کا فیصلہ کیا، نہ صرف جزیرہ نما کوریا کی سلامتی کو خطرے میں ڈالا بلکہ پورے خطے اور امریکہ کو بھی۔"
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ "شمالی کوریا کو ذمہ دار ٹھہرانے" کے لیے بین الاقوامی برادری پر زور دیتا رہے گا۔
امریکہ، جاپان اور جنوبی کوریا نے اتوار کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کی درخواست بھی کر دی ہے۔ توقع ہے کہ یہ تینوں ملک شمالی کوریا کے خلاف مزید سخت پابندیوں پر زور دیں گے۔
پیانگ یانگ کے میزائل تجربے کے بعد جاپان کے وزیراعظم شنزو ایبے نے صحافیوں کو بتایا کہ "ہم اس کی کسی صورت اجازت نہیں دے سکتے، اور جاپان اپنے لوگوں کی سلامتی و تحفظ کے لیے اقدام کرے گا۔"
گزشتہ جمعہ کو ہی امریکی صدر براک اوباما نے اپنے چینی ہم منصب شی جنپنگ سے شمالی کوریا کے گزشتہ ماہ کیے جانے والے جوہری تجربے اور طے شدہ میزائل تجربے پر بات کی تھِ۔
دونوں رہنماوں نے اتفاق کیا تھا کہ یہ تجربہ "اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے برخلاف اور اشتعال انگیزی و عدم استحکام کی کارروائی ہوگی۔"