شمالی کوریا نے اقوام متحدہ کی بین الاقوامی سمندری تنظیم (انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن) کو مطلع کیا ہے کہ وہ رواں ماہ ارضیاتی جائزے کے لیے ایک سیٹیلائیٹ کا آغاز کرنے جا رہا ہے۔
اس پیش رفت پر امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیانگ یانگ اس کی آڑ میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل کی ٹیکنالوجی پر کام کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
تنظیم کی ابلاغ عامہ کی افسر نتاشا براؤن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شمالی کوریا نے سیٹیلائیٹ چھوڑے کی تاریخ اور وقت سمیت اپنے منصوبے سے متعلق تفصیلات منگل کو فراہم کیں۔
نتاشا نے وائس آف امریکہ کو ایک ای میل کے ذریعے بتایا کہ "ہمیں ڈی پی آر کے (شمالی کوریا کا ہی نام ہے) کی طرف ارضیاتی جائزہ سیٹیلائیٹ چھوڑنے سے متعلق معلومات موصول ہوئی ہیں۔ کوانگمیونگ سونگ نامی سیٹیلائیٹ آٹھ سے 25 فروری کے درمیان چھوڑی جائے گی۔"
شمالی کوریا کی سیٹیلائیٹ کو لے جانا والا راکٹ تین مرحلوں میں علیحدہ ہوگا اور اس کے ٹکڑے جنوبی کوریا کے مغربی ساحل اور فلپائن کے شمالی ساحل کے قریب گریں گے۔
اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے معلومات و مواصلات "انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکیشن یونین" نے بھی تصدیق کی ہے کہ اسے پیانگ یانگ نے اپنے منصوبے کی معلومات فراہم کر دی ہیں۔
ایجنسی کے تعلقات عامہ کے سربراہ سنجے اچاریا نے بتایا کہ پیانگ یانگ نے ایجنسی کو مطلع کیا ہے کہ یہ سیٹیلائیٹ "چار سالوں تک کی کارروائی کے نظام" کی حامل ہے۔
امریکہ نے فوری طور پر سیٹیلائیٹ کے طے شدہ منصوبے کی مذمت کی ہے۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی کہتے ہیں کہ "یہ اقدام سلامتی کونسل کی ان متعدد قراردادوں کی خلاف ورزی ہوگا جو کہ بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی کے استعمال کا کالعدم قرار دیتی ہیں۔"
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ارنسٹ کا کہنا تھا کہ "یہ (سیٹیلائیٹ چھوڑنا) شمالی کوریا کی طرف سے عدم استحکام کا باعث بننے والی ایک اور اشتعال انگیزی ہوگی۔"
جنوبی کوریا اور جاپان نے بھی شمالی کوریا کے اس منصوبے کی شدید مخالفت کرتے ہوئے اس سے باز رہنے کا کہا ہے۔
عالمی طاقتیں اس تشویش کا اظہار کرتی رہی ہیں کہ ہر تجربہ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے جوہری میزائلوں کی ٹیکنالوجی کے حصول کے قریب لیتا جائے گا۔
پیانگ یانگ نے گزشتہ ماہ ہائیڈروجن بم کا کامیاب تجربہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا جس کے بعد امریکہ سمیت دیگر عالمی قوتوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس ملک پر مزید سخت پابندیاں عائد کرنے کے لیے قراردادیں پیش کیں۔