رسائی کے لنکس

شمالی وزیرستان کا تذکرہ ملکی سیاست کو گرما رہاہے


شمالی وزیرستان کا تذکرہ ملکی سیاست کو گرما رہاہے
شمالی وزیرستان کا تذکرہ ملکی سیاست کو گرما رہاہے

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک مرتبہ پھر وزیرستان کا موضوع پاکستانی سیاست کو گرما رہاہے۔ سیاسی اور عسکری قیادت کا موقف ہے کہ وہ شمالی وزیرستان میں آپریشن اپنی ترجیحات کے مطابق کرے گی جبکہ کچھ سیاسی قوتیں اس کے منفی نتائج پر بات کررہی ہیں۔ بحث گرم ہے ، کیا نتیجہ نکلے گا ، کیا نہیں،یہ تو وقت ہی بتائے گا تاہم اتنا ضرور ہے کہ اس موقع پر ہر پہلو کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔

اس موضوع پر آگے بڑھنے سے پہلے ذرا اس بات پر بھی غور کیا جائے کہ وزیرستان کہاں ہے ؟ یہاں کیا مسئلہ درپیش ہے؟ امریکا اور پاکستان کے لئے اس کی کیا اہمیت ہے ؟جنوبی وزیرستان کے بعد اب شمالی وزیرستان میں بھی آپریشن کیوں ناگزیر ہے؟ اگر آپریشن ہوا تو اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟ وغیرہ وغیرہ۔

جنوبی وزیرستان سن دوہزار چار سے دنیا بھر کے میڈیا کی توجہ کا مرکزبنا ہوا ہے ۔جب بھی ڈورن حملوں ، دہشت گردوں کے ٹھکانوں اوردہشت گردی کے تربیتی مراکزکی بات ہوتی ہے، وزیرستان سرفہرست ہوتا ہے ۔ یہ پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں پر واقع وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات میں آتا ہے جسے مختصراً فاٹا کہا جاتا ہے۔ فاٹا افغانستان کی ستائس ہزار دو سو بیس مربع کلومیٹر تک پھیلی سرحد سے ملا ہواہے ۔ یہ پاکستان کا شمال مغربی حصہ ہے جبکہ اس کے مشرق میں صوبہ سرحداور جنوب میں بلوچستان واقع ہیں۔

وزیرستان کی سات ایجنسیاں ہیں۔ (1)باجوڑ،(2) مہمند، (3)خیبر،(4) اورکزئی، (5)کرم، (6)شمالی وزیرستان اور (7)جنوبی وزیرستان۔۔۔ جبکہ فاٹا کے زیر انتظام شہروں میں پشاور، کوہاٹ، بنوں، لکی مروت، ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان آتے ہیں۔

وزیرستان کا شمال مغربی پہاڑی علاقہ گیارہ ہزار پانچ سو پچاسی مربع کلومیٹر پر محیط ہے اور یہ دو ایجنسیوں شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان میں منقسم ہے۔ان علاقوں کی آبادی کا تخمینہ بالترتیب چھ اور آٹھ لاکھ لگایا گیا ہے۔ جنوبی وزیرستان کا علاقہ دریائے توچی اور دریائے گومل کے درمیان پشاور کے مغرب و جنوب مغرب میں آتا ہے۔اس کا نام پشتون قبیلے وزیر کی مناسبت سے رکھا گیا ہے۔یہ فاٹا کی سب سے بڑی ایجنسی ہے۔ موسم سرما میں ٹانک اورگرما میں وانا اس کا ہیڈ کوارٹر ہوتا ہے۔ شمالی او ر جنوبی وزیرستان کی سرحدیں آپس میں بھی ملتی ہیں۔جنوبی وزیرستان کا کل رقبہ چھ ہزار چھ سو انیس مربع کلومیٹر ہے۔ یہاں کی زمین زیادہ تر پتھریلی اور پہاڑی ہے جس میں گہری ، گہری کھائیاں واقع ہیں۔ تاہم کچھ میدانی علاقے بھی ہیں مثلاً زرمیلان، وانا، شکئی، زلائی، اسپن اور تیارزہ ۔

وزیرستان ،سن انیس سو اناسی میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے ساتھ ہی عسکری سرگرمیوں کا مرکز بن گیا تھا۔ انہی سرگرمیوں کے باعث یہ علاقہ دنیا کی خبروں میں اہمیت اختیار کرگیا۔ مغربی میڈیا اور امریکی حکام کے مطابق وزیرستان ہی وہ علاقہ ہے جہاں سے افغانستان میں امریکی اور نیٹو فورسز پر حملے کئے جاتے ہیں ۔ دور دورتک پہاڑی سلسلوں کے پھیلا ہونے کی وجہ سے یہ عسکریت پسندوں کا محفوظ ٹھکانہ تصور کیا جاتا ہے۔ ان ٹھکانو ں کے خاتمے کی غرض سے پاکستانی فوج نے گزشتہ سالوں میں جنوبی وزیرستان میں آپریشن کیااور ان ٹھکانو ں کو ختم کردیا تاہم شمالی وزیرستان اب بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔

امریکی حکام اور میڈیا رپورٹس کے مطابق شمالی وزیرستان میں امریکی مخالف جہادی تنظیم حقانی نیٹ ورک سرگرم ہے اور اس نے شمالی وزیرستان میں ہی اپنا ہیڈ کوارٹرز قائم کررکھا ہے جہاں سے وہ امریکی اور نیٹو افواج کے خلاف کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرنے کے علاوہ عسکریت پسند تیار کرکے سرحد پاریعنی افغانستان بھجواتا ہے۔ افغانستان کے صوبہ خوست میں رہنے والے زردان قبائل حقانی نیٹ ورک کے حمایتی ہیں۔ اس گروہ کو قبائلی 1979ء میں افغانستان پر سوویت فوجوں کے حملے کے وقت سے ہی مجاہدین کا سب سے طاقتور گروہ تسلیم کرتے ہیں اور اس کا قبائل میں بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے۔ اطلاعات کے مطابق القاعدہ اور غیر ملکی عسکریت پسندوں کی حمایت حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے ملا عمر سے بھی رابطے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق دیگر ملکی غیر ملکی شدت پسند بھی شمالی وزیرستان کے مختلف علاقوں میں موجود ہیں جنہوں نے افغانستان میں نیٹو اور امریکی افواج کے لئے مشکلات کھڑی کی ہوئی ہیں۔

شمالی وزیرستان کے ہی حافظ گل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں نے شمالی وزیرستان میں ممکنہ آپریشن کی اطلاعات پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے آپریشن کی صورت میں افغانستان ہجرت کرنے کی دھمکی دی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ان دنوں شمالی وزیرستان میں بڑے فوجی آپریشن کے بادل منڈلارہے ہیں ۔ ملکی و فوجی قیادت اس معاملے کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے ہر اعتبار سے آپریشن کرنے کے امکانات پر غور کررہی ہے کیوں کہ فیصلے سے قبل علاقے میں کشیدگی بڑھنے اور مقامی شدت پسندوں کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے کوبھی مد نظر رکھا جارہا ہے۔

ایک پاکستانی میڈیا رپورٹ کے مطابق اگر شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن شروع کیاگیا تو ا س کے اثرات صرف شمالی وزیرستان تک ہی محدود نہیں رہیں گے بلکہ اس کے اثرات پورے ملک اور خصوصاً صوبہ خیبر پختونخواہ تک پھیل سکتے ہیں۔ اس نقطے پر بھی غور جاری ہے کہ کہیں خیبر پختونخواہ سمیت ملک کے دیگر حصوں میں دہشت گرد کارروائیوں میں خطرناک حد تک اضافہ تو نہیں ہوجائے گا ۔

XS
SM
MD
LG