جمعے کے روز ناروے کے درالحکومت اوسلو کا مرکزی علاقہ ایک بڑے دھماکے سے لرز اٹھا ۔ دھماکے کے نتیجے میں کم از کم سترہ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔ اسکے علاوہ نوجوانوں کے ایک گروپ پر فائرنگ سے کئی افراد زخمی ہوگئے۔
دھماکے سے ہیڈکوارٹرز کی 17 منزلہ عمارت کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے ۔ اس عمارت میں وزیر اعظم جینز اسٹالٹن برگ کے دفاتر بھی موجود ہیں۔ تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ جمعے کی سہ پہر ہونے والے اس دھماکے میں وہ محفوظ رہے۔
دھماکے کے چند گھنٹوں بعد، پولیس کا کہنا ہے کہ پولیس کی وردی میں ملبوس ایک شخص نے نوجوانوں کے ایک گروپ پر فائرنگ کردی جس سے پانچ افراد زخمی ہوگئے۔ یہ نوجوان اوسلو کے جنوب میں واقع یوٹویا جزیرے پر حکمراں لیبر پارٹی کے ایک تربیتی کیمپ میں شرکت کررہے تھے۔ حکام نے اوسلو دھماکے اور اس واقعہ میں کسی تعلق کا اظہار نہیں کیا ہے۔
ایک تحقیقی ادارے سی این اے نے کہا ہے کہ انصار الجہاد العالمی نامی ایک تنظیم نے ان حملوں کی ذمداری قبول کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حملے ناروے کے فوجیوں کی افغانستان میں موجودگی اور پیغمبر اسلام محمد ﷺ کی شان میں ناروے کے اخبارات کی گستاخی ہے۔ تاہم ناروے کی حکومت نے اس دعوے کی تصدیق نہیں کی۔
امریکہ نے اس دھماکے کو تشدد کا ایک قابل نفرت واقعہ قرار دیا ہے۔ صدر براک اوباما نے واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ناروے کے عوام سے مرنے والوں پر تعزیت کا اظہار کیا، انہوں نے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ اس قسم کے حملوں کو روکنے کے لیے تمام عا لمی برادری کو حصہ لینا چاہیے۔ ناروے کے وزیر اعظم نے اس دھماکے کو نازک صورتحال قرار دیا۔ جبکہ یورپ یونین نے اسے بزدلی کہا ہے۔
دھماکے سے سرکاری عمارتوں کے قریب واقع کئی دوسرے دفاتر کو بھی نقصان پہنچا جن میں ملک کے سب سے بڑے اخبار وی جی کا دفتر بھی شامل ہے۔ دھماکے سے قریب ہی واقع وزارت تیل کی ایک عمارت کو بھی آگ لگ گئی۔
دھماکے کی وجہ کا تاحال علم نہیں ہوسکی ۔ تاہم عمارت کے باہر ایک تباہ شدہ کار دکھائی دے رہی ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ممکنہ طورپر اس میں دھماکہ خیز مواد کار میں نصب کیا گیاتھا۔
عینی شاہدین کا کہناہے کہ انہوں نے خون میں لت پت کئی زخمیوں کو لے جاتے ہوئے یا سرکاری عمارتوں سے بھاگتے ہوئے دیکھا ہے۔
روئیٹرز کے ایک نمائندے کا کہناہے کہ اس نے کم ازکم آٹھ زخمی دیکھے ہیں ۔ وہاں موجود ایک اور شخص کا کہنا ہے کہ لوگ خوف زدہ ہوکر بھاگ رہے تھے۔
دھماکے کے بعد ہیڈکوارٹرز کی عمارت کے سامنے سڑک پرملبہ نظر آرہاہے۔
ناروے نسبتاً ایک پرامن ملک ہے اور وہاں سیاسی تشدد کے واقعات عموماً دیکھنے میں نہیں آتے۔