ضلع نوشہرہ کے ایک گاﺅں سے تعلق رکھنے والی خاتون الماس بی بی، جن پر ساس اور دیگر سسرائیلیوں نے تیل چھڑک کر آگ لگا دی تھی، اب کھاریاں کے ایک ہسپتال میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے۔
متاثرہ خاتون کے بھائی محمد عارف نے ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں کہا کہ ان کو انصاف چاہیئے کیونکہ، بقول اُن کے، ’’مخالف فریق انتہائی با اثر ہیں‘‘۔ تاہم، متعلقہ پولیس افسر نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اس معاملے میں کسی قسم کی اقربا پروری یا امتیازی سلوک نہیں کیا جا رہا‘‘۔
محمد عارف نے بتایا کہ الماس بی بی نے ساس اور دیگر رشتہ داروں سے عید الفطر کے موقع پر والدین کے گھر جانے کی درخواست کی، تھی جس پر ان کے گھریلو معاملات بگڑ گئے۔
عارف کے مطابق، عیدالفطر کے دوسرے دن جب الماس بی بی قرآن کریم کی تلاوت کر رہی تھی تو پیچھے سے اس کی ساس، دیور اور دیور کی بیوی نے مٹی کا تیل چھڑک کر انھیں آگ لگا دی۔ بعدازاں، اُنھیں مقامی ہسپتال پہنچا دیا گیا جہاں سے ڈاکٹروں کے مشورے پر کھاریاں میں واقع فوجی ہسپتال کے ’برن یونٹ‘ منتقل کر دیا گیا۔
عارف نے بتایا کہ ڈاکٹروں کے مطابق، الماس بی بی کے جسم کا 80فیصد حصہ جھلس چکا ہے۔
ضلع نوشہرہ کے قصبے پبی کے پولیس تھانے کے سربراہ فضل شیر نے رابطہ کرنے پر ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ اس واقعہ کے فوراً بعد الماس بی بی کے رشتہ داروں کی رپورٹ پر مقدمہ درج کیا گیا ہے اور ایک ملزم کو اسی وقت گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ تاہم، دو ملزمان (خواتین) نے ایک عدالت سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرلی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں پولیس عہدیدار نے اس تاثر کو مسترد کردیا کہ پولیس ملزمان کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں یا مقدمے میں ان کے مدد کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ متاثرہ خاتون اور اس کے خاندان کو ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
خیبرپختونخوا اور ملحقہ قبائلی علاقوں میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں صوابی اور قبائلی علاقے لنڈی کوتل میں 2 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا ہے۔