پیر کے روز لاہو ر میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے غیرت کے نام پر قتل کے اس مقدمے میں جس میں ماں نے بیٹے اور داماد کی مدد سے گزشتہ برس جون کے مہینے مں اپنی بیٹی کو پسند کی شادی کرنے پر جلا کر مار ڈالا تھا، ماں پروین بی بی کو بیٹی اٹھارہ سالہ زینت بی بی کے قتل کے جرم میں موت کی سزا سنائی ہے۔
بیٹی نے عدالت جاکر پسند کی شادی کرلی تھی۔ فیکٹری ایریا کی رہائشی اس لڑکی کی شادی کو محض ایک ہفتہ ہواتھا کہ اس کو اور اس کے شوہر کو گھر والوں نے یہ کہہ کر بلایا کہ وہ دھوم دھام اور روایتی طریقے سے ان کی شادی کریں گے۔ لڑکی یہ بات مان کر جب اپنے گھر واپس آئی تو اسی روز لڑکی کو جلاکر راکھ کردیا گیا۔
پولیس کو شبہہ تھا کہ اس قتل میں مرنے والی لڑکی زینت بی بی کا بھائی اور بہنوئی بھی بطور معاون شامل تھے تاہم انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج نے لڑکی کے بھائی کو مجرم گردانا اوراسے عمر قید کی سزا سنادی۔
دوران مقدمہ عدالت میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ زینت بی بی کو زندہ جلانے سے پہلے مارا پیٹا گیا اور پھر زینت کی ماں پروین بی بی نے اپنی ہی بیٹی پر مٹی کا تیل چھڑک کر اس کو آگ لگا دی۔ عدالت میں پروین بی بی نے اقبال جرم بھی کرلیا تھا۔
حقوق انسانی اور عورتوں کی تنظیموں نے غیرت کے نام پر قتل کے جرم میں موت کی سزا سنائے جانے کا یہ کہتے ہوئے خیر مقدم کیا ہے کہ اکثر غیریت کے نام پر قتل کے مقدموں میں معافی تلافی ہوجاتی ہے اور مجرم سزا سے بچ جاتے ہیں۔ عورت فاونڈیشن کی عہدیدار ممتاز مغل نے وی او اے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ سزا تو خوش آئند ہے مگر اس کو اگلی اعلیٰ عدالتوں میں بھی قائم رہنا چاہئے تاکہ جو لوگ عورتوں کو غیرت کے نام پر بلا جھجک قتل کردیتے ہیں ان کو کچھ عبرت حاصل ہو اور ہمارے ملک کی عورتیں اس ظلم سے محفوظ ہوسکیں۔
گزشتہ برس جون میں غیر ت کے نام پر اٹھارہ سالہ زینت بی بی کے زندہ جلائے جانے کے واقعے کی ایک المناک تفصیل یہ بھی ہے کہ زینت بی بی کی جلی میت کو اس کا کوئی رشتہ دار لینے نہیں آیا اور پولیس کے کہنے کے مطابق زینت کے شوہر کے خاندان والوں نے رات کے اندھیرے میں زینت بی بی کے جلے ہوئے جسد خاکی کو دفن کردیا تھا۔