آصف علی زرداری نے سپریم کورٹ کا 29 اگست کا فیصلہ چینلج کرتے ہوئے نظر ثانی درخواست دائر کر دی۔ آصف علی زرداری کہتے ہیں کہ کسی بھی قانون کے تحت کسی شخص سے اس کے ماضی کے اثاثوں کی تفصیلات نہیں مانگی جا سکتی۔ عدالت کا حکم آرٹیکل 4، 175 اور 187 کی خلاف ورزی ہے۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے سپریم کورٹ کو 2007 کے بعد سے بیرون ملک اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔ آصف علی زرداری نے سپریم کورٹ کے 29 اگست کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواست دائر کر دی۔
سپریم کورٹ میں سابق صدر کی جانب سے وکیل فاروق ایچ نائک نے نظر ثانی درخواست دائر کی ہے جس میں کہا گیا ہے آصف علی زرداری نیب کیسز سے پہلے ہی بری ہوچکے ہیں۔ کسی بھی قانون کے تحت کسی شخص سے اس کے ماضی کے اثاثوں کی تفصیلات نہیں مانگی جا سکتی۔
درخواست کے مطابق انکم ٹیکس قانون پانچ سالہ اثاثوں کے جائزے کی اجازت دیتا ہے جبکہ الیکشن ایکٹ کے تحت امیدوار سے اس کے اور اس کی اہلیہ کے اثاثوں کی تفصیل مانگی جا سکتی ہیں، اثاثوں کی تفصیلات مانگنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے 2007 سے اثاثوں کی تفصیل مانگ کر اختیار سے تجاوز کیا، عدالت کا حکم آرٹیکل 4، 175 اور 187 کی خلاف ورزی ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا بوجھ آصف زرداری پر ڈال دیا گیا ہے، جبکہ سابق صدر نیب کے مقدمہ سے بری ہو کر بارہا اپنی بے گناہی ثابت کر چکے ہیں۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے اور فیروز شاہ گیلانی کی درخواست کو خارج کیا جائے۔
صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین آصف زرداری نے این آر او کیس میں سپریم کورٹ میں جواب جمع کرا دیا ہے۔
اس سے قبل این آر او کیس میں سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین آصف زرداری نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرایا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ این آر او بنانے میں میرا کوئی کردار نہیں۔ 2007 میں این آر او قانون سے مقدمات واپس لینے کی اجازت دی گئی جب کہ عدالت نے این آر او کو کالعدم قرار دیا تو بند کیسز دوبارہ کھل گئے۔
آصف زرداری نے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا تھا کہ فوجداری مقدمات میں عدالتوں کا سامنا کرکے رہائی ملی جب کہ خزانے کو لوٹنے اور نقصان پہنچانے کا کوئی الزام ثابت نہ ہوسکا۔ مجھ پر مخالفین نے سیاسی مقدمات بنائے گئے۔ لہذا، یہ درخواست مجھے اور بڑی سیاسی جماعت کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔
2007میں پرویز مشرف نے بحیثیت صدر پاکستان قومی مفاہمتی آرڈیننس جاری کیا تھا، جس کے تحت 12 اکتوبر 1999 سے پہلے عوامی اور سرکاری عہدے رکھنے والے افراد کے خلاف عدالتوں میں زیرِ التواء ہزاروں مقدمات ختم کئے تھے۔ تاہم، سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے 2009 کو این آر او کو قومی مفاد کے خلاف اور آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے اسے کالعدم قرار دیا تھا۔