سائنس دانوں نے بدھ کے روز خبردار کیا ہے کہ جوہری مواد کے پھٹنے اور ہتھیاروں کے تجربوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے تابکار مواد کی دنیا بھر کے گلیشیئرز میں موجودگی کے شواہد ملے ہیں جو بڑھتی گرمی اور تیزی سے پگھلتے گلیشیئرز کے باعث ایک ٹائم بم کی حیثیت رکھتے ہیں۔
یہ پہلی بار ہوا ہے کہ ایک بین الاقوامی ٹیم نے دنیا بھر کے مختلف گلیشیئرز میں ریڈیو ایکٹو مواد کا کھوج لگایا ہے۔ اس ٹیم نے آرکٹک، آئس لینڈ، آلپس، کاکس، برٹش کولمبیا اور انٹارٹیکا کے گلیشیئرز کا مطالعہ کیا۔
اس ٹیم نے ان تمام 17 مقامات پر، جہاں کا مطالعہ کیا وہاں انسان کے بنائے ہوئے ریڈیو ایکٹو مواد کو موجود پایا۔ ٹیم کے مطابق یہ مواد اکثر جگہوں پر دس گنا زہادہ مقدار میں ملا۔
یونی ورسٹی آف پلے مانتھ میں فزیکل جیوگرافی کی لیکچرار کیرولین کلاسن کا کہنا تھا کہ ‘‘اس تابکار مواد کی مقدار کسی بھی جوہری اخراج کے علاقے سے باہر کے ماحول میں سب سے زیادہ تھی۔’’
جب تابکار مواد فضا میں پھیلتا ہے تو یہ عموماً تیزابی بارش کی صورت میں واپس زمین پر لوٹتا ہے جس کی کچھ مقدار زمین اور پودے جذب کر لیتے ہیں۔
مگر جب یہ مواد برف کی صورت گلیشیئرز پر گرتا ہے تو یہ برف میں بڑی مقدار میں جمع ہو جاتا ہے۔
1986 میں چرنوبل میں ہونے والے جوہری حادثے کی وجہ سے بڑی مقدار میں ریڈیو ایکٹو مواد فضا میں پھیل گیا تھا جس کی وجہ سے کئی ہفتوں تک شمالی یورپ میں تیزابی بارشیں ہوتی رہی تھیں۔
کیورلین کا کہنا تھا کہ ‘‘ریڈیو ایکٹو ذرات بہت چھوٹے ہوتے ہیں، اس لئے وہ فضا میں بہت دور دور تک پہنچ جاتے ہیں۔’’
انہوں نے کہا کہ ‘‘جب یہ تابکار ذرات چرنوبل جیسے واقعات کے بعد تیزابی بارش کی صورت یہ گرتے ہیں تو جلد ہی ختم ہو جاتے ہیں مگر جب یہ برف کی شکل میں کہیں جم جاتے ہیں تو یہ عشروں تک وہاں موجود رہتے ہیں اور برف کے پگھلنے کے ساتھ دریاؤں میں پھیل جاتے ہیں۔’’
حالیہ برسوں میں سویڈن میں اسی وجہ سے جنگلی سور کے گوشت میں ایک تابکار مادے ’سیزیئم‘ کی مقدار نارمل سے دس گنا زیادہ موجود پائی گئی۔
کیرولین نے بتایا کہ 50 اور 60 کی دہائی اور اس سے پہلے جوہری ہتھیاروں کے جو ٹیسٹ کئے گئے ان کی وجہ سے گلیشیئرز میں جوہری فضلہ جمع ہوتا گیا۔
کیرولین کا کہنا تھا کہ ‘‘یہ مواد اس چیز کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہم نے فضا میں کیا پھینکا ہے۔ اس سے ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ جو ہم نے جوہری دھماکے کئے تھے ان کے نقصانات ابھی تک ختم نہیں ہوئے ہیں۔’’