امریکہ میں رواں سال اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران مارے جانے والے پولیس اہلکاروں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
ان میں زیادہ تر ہلاکتیں پولیس اہلکاروں پر ہونے والے حملوں میں ہوئیں جن میں ڈیلاس، بالٹن اور لوزیانا میں گھات لگا کر کیے جانے والے حملے میں شامل ہیں۔
’نیشنل لا انفورسمنٹ میموریل فنڈ‘ کی طرف سے جمعرات کو جاری ہونے والی رپوررٹ کے مطابق رواں سال 135 پولیس افسر ہلاک ہوئے، ان میں سے بعض ٹریفک حادثات میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جب کہ نصف تعداد ان اہلکاروں کی ہے جنہں گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔
گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں سال فائرنگ کے واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں 56 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
’نیشنل لا انفورسمنٹ‘ کے سربراہ کریگ فلائیڈ نے کہا کہ "میں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی ایسا نہیں دیکھا کہ فائرنگ کے واقعات میں اتنی بڑی تعداد میں افسر ہلاک ہوئے ہوں۔"
"یہ افسران صرف اپنے یونیفارم اور اپنے کام کی وجہ سے مارے گئے، یہ اس معاشرے کے لیے نا قابل قبول ہے جس میں ہم رہتے ہیں۔"
ان حملوں کی وجہ سے امریکہ میں پولیس کی طرف سے خاص طور افریقی امریکیوں کے خلاف طاقت کے مبینہ استعمال کے معاملے پر ملک بھر میں ہونے والی بحث پیچیدہ ہو گئی ہے۔
رواں سال 7 جولائی کو ڈیلاس میں پولیس کی طرف سے طاقت کے بے جا استعمال کے خلاف ہونے والے ایک احتجاجی مظاہرے کے اختتام پر ایک شخص نے چھپ کر حملہ کیا۔
اس واقعہ میں 5 پولیس اہلکار ہلاک اور 9 دیگر زخمی ہوئے، امریکہ میں نائن الیون حملوں کے بعد کسی ایک واقعہ میں ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کی یہ سب سے بڑی تعداد تھی، نائن الیون حملوں میں 72 پولیس اہلکار مارے گئے تھے۔
ڈیلاس حملے کے چند دنوں کے بعد ہی امریکی ریاست لوزیانا کے شہر بیٹن روج میں ایک مسلح شخص کی فائرنگ سے تین پولیس افسر ہلاک اور تین زخمی ہو گئے تھے۔ یہ واقعہ اسی شہر میں پانچ جولائی کو پولیس کے ہاتھوں ایک سیاہ فام ایلٹن اسٹرلنگ کی ہلاکت کے بعد پیش آیا۔
فلائیڈ نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے نئے افسروں کی بھرتی کے حوالے سے کوشاں ہیں اور جو اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں وہ "درپیش خطرے کی بات کرتے ہیں۔"
فلائیڈ نے کہا کہ "وہ ہمیشہ فکر مند رہتے ہیں، ہمیشہ انہیں اگلے حملے کی پریشیانی لاحق رہتی ہے جو کسی بھی وقت اور کسی بھی سمت سے ہو سکتا ہے۔"