امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ امریکہ کو افغانستان میں ’اصل پیش رفت‘ حاصل ہورہی ، باوجود اُس نئے تناؤ کے جس کاباعث شوٹنگ کا وہ واقع ہے جس میں مبینہ طور پر ایک امریکی فوجی کے ہاتھوں 16شہری ہلاک ہوئے۔
مسٹر اوباما نے یہ بات بدھ کے روز وائٹ ہاؤس میں برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے ساتھ مشترکہ اخباری کانفرنس سے خطاب میں کہی۔
صدر نے کہا کہ افغانستان میں رونما ہونے والے حالیہ ’المناک واقعات‘ اِس بات کی یا د دہانی کے مترادف ہیں کہ اب بھی یہ ایک مشکل مشن ہے، لیکن امریکہ اور نیٹو افواج نے القاعدہ اور طالبان کے خلاف کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
اُنھوں نے انخلا کے نظام الاوقات کے بارے میں اپنے عزم کا اعادہ کیا جِس کی رو سے امریکہ 2014ء میں سکیورٹی کی مکمل ذمہ داریاں افغان فوج کے حوالے کردے گا۔
وزیر اعظم کیمرون نے کہا کہ افغانستان میں اتحادی افواج مثالی افغانستان تو تعمیر نہیں کر پائیں گی، تاہم وہ اس سلسلے میں ایک واضح پیش رفت ضرور حاصل کر رہی ہیں۔
بدھ کو ’رائٹرز اور آئی پی سوس‘ کے طرف سے کرائے گئے ایک عام جائزے سے پتا چلتا ہےکہ لڑائی کےلیے امریکی حمایت میں کمی آتی جارہی ہے۔ چالیس فی صد امریکیوں نے اِس آن لائن سروے میں بتایا کہ فائرنگ کے حالیہ واقع کے بعد لڑائی کے بارے میں اُن کی رائے پھیکی پڑ گئی ہے۔ ایکسٹھ فی صد کا کہنا تھا کہ باقی ماندہ امریکی فوجیوں کو فوری طور پر واپس بلالیا جائے گا۔
صدر اوباما نے شام میں شہری آبادی کے خلاف ہونے والے تشددکو ’خوفناک‘ قرار دیا۔
مسٹر اوباما نے کہا کہ اِس وقت ذہن شام میں انسانی بنیادوں پر امدادی کام کرنے پر مرتکز ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ شامی صدر بشار الاسد اقتدار چھوڑ دیں گے۔ اُنھوں نے کہا کہ سوال ’اگر‘ کا نہیں، بلکہ ’کب ‘ کا ہے۔
صدر نے یہ بھی کہا کہ امریکہ اِس بات پر پُرعزم ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرنے دیا جائے گا۔
مسٹر اوباما نےمتنبہ کیا کہ اگر ایران نے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری کرنے کے معاملےسے بچنے یا کسی طورپر جھانسہ دینے کی کوشش کی تو اُس کے خلاف تعزیرات کو مزید سخت کردیا جائے گا۔
بدھ کو مسٹر اوباما نے سرکاری دورے پر آئے ہوئے مہمان کے لیےآمد کی ایک تفصیلی تقریب کا اہتمام کیا۔
مسٹر اوباما اور مسٹر کیمرون رواں ہفتے ’دی واشنگٹن پوسٹ‘ اخبار میں لکھ چکے ہیں کہ امریکہ اور برطانیہ کا اتحاد ’’تاریخ، روایات اور اقدار سے بندھی دلی شراکت داری‘‘ پر مبنی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ دونوں دیگر عالمی اقتصادی قوتوں کے ساتھ مل کر روزگار کے مواقع اور یورپ کے اقتصادی بحران کو حل کرنے کے لیے کام کررہے ہیں۔