صدر اوباما گذشتہ سال آسٹریلیا کا دورہ کرنے والے تھے لیکن ان کا دورہ دو بار ملتوی ہوا ۔ پہلی بار امریکہ میں صحت کی دیکھ بھا ل کے مسئلے پر بحث کی وجہ سے اور پھر خلیجِ میکسیکو میں تیل پھیل جانے کا مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ آسٹریلیا اس علاقے میں امریکہ کے پانچ اتحادیوں میں شامل ہے ۔ وہ ان 9 ملکوں میں بھی شامل ہے جن کے درمیان ایک نئی Trans-Pacific Partnership تشکیل دینے کے لیے مذاکرات ہو رہے ہیں۔
مسٹر اوباما کا ایک روزہ دورہ آسٹریلیا، نیو زی لینڈ، اور امریکہ کے درمیان 1951 کے اس معاہدے کی ساٹھویں برسی کے روز ہو رہا ہے جس کے تحت مشترکہ سیکورٹی کے عہد کیے گئے ہیں۔
صدر اوباما کینبرا میں پارلیمینٹ سے خطاب کریں گے، اور ڈارون میں مختصر وقت کے لیے رکیں گے ۔ یہ وہ جگہ ہے جس پر دوسری جنگِ عظیم میں جاپانیوں نے سب سے زیادہ ہوائی حملے کیے تھے ۔
امریکہ اور آسٹریلیا کے درمیان انتہائی قریبی فوجی اور انٹیلی جنس کے تعلقات قائم ہیں ۔ آسٹریلیا کی فوجیں افغانستان میں موجود ہیں۔ توقع ہے کہ مسٹر اوباما ان آسٹریلوی سپاہیوں کوخراج تحسین پیش کریں گے جو ایک حالیہ حملے میں ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔
فوجی سمجھوتے کے بارے میں ابتدائی کام حالیہ مہینوں کے دوران امریکی اور آسٹریلوی دفاعی عہدے داروں کے درمیان مذاکرات میں ہوا تھا۔ اس کے ذریعے مغربی آسٹریلیا کے اڈوں پر امریکی فوج کو زیادہ رسائی حاصل ہو جائے گی اور وہاں فوجی سازو سامان کو پہلے سے نصب کیا جا سکے گا۔
سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ارنسٹ بواِرکہتے ہیں’’یہ بڑی اہم بات ہے۔ آسٹریلیا میں 55 فیصد ووٹ آسٹریلیا میں امریکی اڈوں کے حق میں آئے ہیں ۔ ایشیا میں یہ منفرد وقت ہے ۔ یہاں امریکہ کی موجودگی کا خیر مقدم کیا جاتا ہے تا کہ چین کی حالیہ جارحیت کا جواب دیا جا سکے جس کا مظاہرہ اس نے جنوبی بحیرہ چین میں اور شمال میں Senkakus اور Diaoyus میں کیا ہے۔‘‘
علاقائی ماہرین کہتے ہیں کہ امریکہ جب اپنی فوجی موجودگی کا جائزہ لے گا اور ایشیا پیسفک میں امریکہ کی فوجی موجودگی کے بارے میں فیصلے کیے جائیں گے ، تو ان میں آسٹریلیا کو نمایاں مقام حاصل ہو گا۔
سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ایک حالیہ انٹرویو میں امریکہ میں آسٹریلیا کے سفیر کم بیازلی نے امریکہ اور آسٹریلیا کے درمیان سیکورٹی کے شعبے میں تعاون اور ANZUS اتحاد کے بارے میں کہا’’ANZUS اتحاد سرد جنگ کے عہد میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ اس نظام کا حصہ تھا جس کا مقصد جارحیت کی حوصلہ شکنی تھا۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد، امریکہ اور ANZUS کے دوسرے شراکت دار کے درمیان رابطے میں اضافہ ہوا ہے ، جب کہ بہت سے دوسرے معاہدے بالکل بیکار ہو گئے ہیں۔‘‘
حال ہی میں واشنگٹن میں ورلڈ افیئرز کونسلز آف امریکہ کی کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے، امریکی محکمۂ خارجہ کے ڈپٹی سیکرٹری ویلیم برنز نے کہا کہ مسٹر اوباما کے ایشیا پیسفک کے دورے کا مقصد یہ پیغام دینا ہے کہ پیسیفک میں امریکہ کے سیکورٹی اور اقتصادی مفادات اہم ہیں۔
’’جب ہم مستقبل کی طرف نظر ڈالتے ہیں ، تو اس کی ابتدا ہماری مضبوط پوزیشن سے ہوتی ہے ۔ امریکہ بحرالکاہل کے علاقے کی سفارتی، فوجی اور اقتصادی طاقت ہے اور جیسا کہ وزیرِ خارجہ کلنٹن نے کہا ہے، ہم اپنی یہ پوزیشن برقرار رکھیں گے ۔ ہماری پالیسی کی بنیاد اب بھی ، جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا، فلپائن، اور تھائی لینڈ کے ساتھ ہمارے تاریخی اتحاد ہیں۔‘‘
آسٹریلیا کے ایک روزہ دورے کے بعد، صدر اوباما بالی پہنچیں گے جہاں وہ مشرقی ایشیا کی سربراہ کانفرنس میں شرکت کریں گے ۔ وہاں وہ چین کے صدر ہو جن تاؤ سمیت کئی دو طرفہ ملاقاتیں کریں گے ۔ توقع ہے کہ روس کے صدر دمتری میدویدف کے ساتھ بھی ان کی ملاقات ہوگی۔
اس کانفرنس میں بھی صدر اوباما وہی پیغام دیں گے جو انھوں نے APEC سربراہ کانفرنس میں شرکت کرنے والے لیڈروں کو دیا۔ یعنی یہ کہ امریکہ ایک قابل ِ اعتبار اقتصادی شراکت دار رہے گا ۔ امریکہ ایشیا پیسفک کے علاقے کو آنے والے عشروں میں دنیا کا سب سے زیادہ فعال اور متحرک حصہ سمجھتا ہے، اور اس علاقے میں استحکام انتہائی اہم ہے ۔