امریکہ کے صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ کیلی فورنیا میں بدھ کو پیش آنے والے فائرنگ کے واقعے میں دہشت گردی کا امکان مسترد نہیں کیا جاسکتا۔
جمعرات کو وہائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا کہ واردات کی اصل وجہ تاحال پتا نہیں چل سکی ہے لیکن اس واقعے میں دہشت گردی کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ ممکن ہے کہ فائرنگ کرنے والے جوڑے نے ذاتی پرخاش یا کسی اور وجہ سے حملہ کیا ہو لیکن تاحال ان کے مقاصد کے بارے میں تفتیش کار کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں۔
صدر اوباما نے کہا کہ وہ امریکی عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ ان کی حکومت اس معاملے کی تہہ تک پہنچ کر رہے گی۔
امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر سان برنارڈینو میں بدھ کو معذور افراد کے ایک مرکز میں جاری تقریب کے دوران مسلح افراد کی فائرنگ سے کم از کم 14 افراد ہلاک اور 17 زخمی ہوگئے تھے۔
حملہ آور جائے واردات سے فرار ہونے میں کامیاب رہے تھے۔ لیکن واردات کے چند گھنٹے بعد ہی مقامی پولیس نے جائے واقعہ سے تین کلومیٹر دور واقع ایک قصبے میں کارروائی کرکے ایک مشتبہ جوڑے کو ہلاک کردیا تھا۔
حکام نے شک ظاہر کیا ہے کہ مذکورہ جوڑا سان برنارڈینو فائرنگ میں ملوث تھا۔ مرنے والوں کی شناخت 28 سالہ سید رضوان فاروق اور 27 سالہ تاشفین ملک کے ناموں سے ہوئی ہے جسے حکام رضوان کی بیوی یا منگیتر قرار دے رہے ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ رضوان فاروق مقامی حکومت کے لیے ریستوران انسپکٹر کے طور پر کام کرتا تھا۔
جمعرات کو قومی سلامتی کی ٹیم کے ساتھ اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر اوباما کا کہنا تھا کہ ابھی پوری طرح سے واقعے کی معلومات حاصل نہیں ہوئی ہیں اس لیے اس کے پس پردہ مقاصد کے بارے میں کوئی قیاس آرائی نہیں کی جاسکتی۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ میں اس طرز کے واقعات کی روک تھام کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ جیسے جیسے تفتیش آگے بڑھے گی، ارکانِ کانگریس سمیت سب کو یہ دیکھنا ہوگا کہ انہیں کیا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں چاہیے کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ کوئی شخص انفرادی سطح پر کسی کو نقصان نہ پہنچاسکے۔ "ہم ان کے لئے ایسا کرنا مشکل بنادیں گے کیونکہ ابھی یہ کام آسان ہے۔"