صدر براک اوباما نے اراکینِ کانگریس پر زور دیا ہے کہ وہ جماعتی وابستگی سےہٹ کر تارکینِ وطن سےمتعلق نظام میں اصلاحات لائیں، جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔
جمعرات کو امریکن یونی ورسٹی کےاسکول آف انٹرنیشنل سروس سےخطاب کرتے ہوئے، صدر اوباما نے کہا کہ امریکہ کا امیگریشن نظام شکستگی کا شکار اور خطرناک ہے، جب کہ ملک کی سرحدیں بہت وسیع ہیں اور اُنھیں محض باڑ لگا کر محفوظ نہیں کیا جاسکتا۔
صدر نے کہا کہ در اصل یہ نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور ہر شخص یہ بات جانتا ہے۔
بد قسمتی سے اصلاحات کے منصوبے کو سیاست اور خاص مفادات کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے التویٰ میں ڈال دیا گیا ہے اور واشنگٹن میں سوچ یہ ہوتی ہے کہ مشکل اور جذباتی مسائل کو حل کرنا بیوقوفی کی سیاست ہے۔
صدر اوباما نے امیگریشن کے معاملات پر اپنی پہلی تقریرمیں تارکینِ وطن سےمتعلق نظام میں بنیادی اصلاحات کی پُر زور اپیل کی۔
اُنھوں نے اِس موقعے پر کسی نئے اقدام کا اعلان نہیں کیا، تاہم اُنھوں نے امیگریشن نظام میں بہتری لانےکو ‘اخلاقی ذمہ داری’ قرار دیا۔
وائٹ ہاؤس کے عہدے داروں نے بتایا ہے کہ صدر اوباما کی جانب سے امیگریشن اصلاحات کا معاملہ اُٹھانے کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں جِن میں ریاست ایری زونا کے غیر قانونی تارکینِ وطن کے خلاف سخت قوانین کی حالیہ منظوری بھی شامل ہے۔
صدر اوباما نے کہا کہ وہ امریکہ کے امیگریشن نظام میں جامع اصلاحات چاہتے ہیں۔
غیر قانونی تارکینِ وطن کے خلاف سخت اقدامات کے حامی افراد کو صدر نے یقین دلایا کہ وہ امریکہ میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو پناہ دینے کی حمایت نہیں کرتے۔
اُنھوں نے کہا کہ ہماری قوم کو بھی دیگر قوموں کی طرح اپنی سرحدوں پر کنٹرول ،اور قومیت سے متعلق قوانین بنانے کا حق حاصل ہے۔ اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ غیر قانونی تارکینِ وطن کتنے مہذب کیوں نہ ہوں ، وجوہ کو دیکھے بغیر وہ تمام ایک کروڑ دس لاکھ افراد جنھوں نے قانون توڑا ہے ، اُنھیں جوابدہ ہونا چاہیئے۔
البتہ، صدر نے تارکینِ وطن کے حامی گروپوں کو بھی یقین دلایا کہ وہ غیر قانونی طور پر امریکہ میں مقیم لوگوں کوپکڑ کر ملک بدر کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔
مقبول ترین
1