صدربراک اوباما نے آج امریکہ کے صدر کی حیثیت سے دوسری بار اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد حلف برداری تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ دوسرے ملکوں سے اپنے اختلافات پر امن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس لئے نہیں کہ ہمیں اپنے سامنے موجود خطرات سے آگاہی نہیں ہے بلکہ اس لئے کہ مل جل کر کام کرنا شکوک و شبہات اور خوف کو ختم کرتا ہے۔ صدر اوباما نے کہاہے کہ امریکہ دنیا بھر میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ کام کرے گا اور ان اداروں کو بحال کرے گا جو بیرون ملک بحرانوں سے نمٹنے میں امریکہ کی مدد کرتے ہیں۔
صدراوباماکا کہنا تھاکہ امریکہ ایشیا سے افریقہ اور لاطینی امریکہ سے مشرق وسطی تک جمہوریت کی حمایت کرے گا کیونکہ ہمارا مفاد اور ہمارا ضمیر ہمیں ان کا ساتھ دینے پر مجبور کرتا ہے جو آزادی کے خواہش مند ہیں۔
واشنگٹن میں مبصرین کا کہنا ہے کہ دوسری مدت کے دوران صدر اوباما کے پاس امریکہ کے اندرونی اور بیرونی معاملات حل کرنے کے لئے کئی مواقع اور کئی چیلنجز ہیں۔
اندرون ملک نئی ملازمتیں پیدا کرنا اور امریکی معیشت کو اپنے پاوں پر کھڑا کرنا ، دوسری مدت صدارت میں صدر اوباما کی اولین ترجیحات رہیں گی ۔ اپنے ریپبلکن حریفوں کی جانب سے انہیں اطمینان کا سانس شائد ہی مل سکے۔ مگر۔۔ امریکی قرضوں کی زیادہ سے زیادہ حد بڑھانے کے معاملے پر اوباما کہہ چکے ہیں کہ وہ ایسی ہر بات چیت پر تیار ہونگے لیکن ایسے مذاکرات امریکی عوام کے سر پر بندوق رکھ کر نہیں کرنا چاہیں گے۔
گزشتہ مہینے امریکی ریاست کنیٹی کٹ کے ایک سکول میں فائرنگ سے چھبیس ہلاکتوں کے بعد ہتھیاروں پر کنٹرول بھی صدر اوباما کی دوسری مدت کے ایجنڈے میں اہم معاملہ بن چکاہے ۔ گن کنٹرول کے معاملے پر صدر اوباما کو اپنے تجویز کردہ نئے قوانین پر امریکہ کی نیشنل رائفل ایسو سی ایشن کی تنقید کا بھی سامنا ہے ۔۔
امیگریشن کی اصلاحات بھی صدر اوباما کی پہلی مدت صدارت کا نا مکمل ہدف ہیں ، اسے وہ اپنی دوسری مدت کے دوران حاصل کرنا چاہیں گے ۔لیکن اس کے لئے کیپیٹل ہل پر اتفاق رائے پیدا کرنا ضروری ہوگا۔ اور اوباما کہہ چکے ہیں کہ حلف برداری کے بعد کانگریس میں اس معاملے کوآگے بڑھانے کے بل پر کام شروع کر دیا جائے گا ۔
واشنگٹن کے بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے جان ہوداک کا خیال ہے کہ صدراوباما اگلی بار بھی کسی ڈیمو کریٹ کو ہی امریکہ کا صدر بنتے دیکھنا چاہیں گے اوردو ہزار سولہ میں امریکی صدر ڈیمو کریٹک پارٹی سے تبھی منتخب ہوگا، جب وہ اپنے موجودہ چار سالوں میں کوئی کامیابی حاصل کرکے دکھائیں ۔
صدر اوباما کو امریکی افواج کو افغانستان سے نکالنے کا مرحلہ دو ہزار چودہ تک اپنے انجام کو پہنچانا ہے ۔ ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف کسی ممکنہ اسرائیلی کارروائی اور شام میں صورتحال بگڑنے کی صورت میں کسی مداخلت کے لئے حمایت حاصل کرنا بھی دوسری مدت کے دوران صدر اوباما کی ترجیحات ہونگی۔
واشنگٹن کے مبصرین کے مطابق صدر اوباما امریکہ کے فوجی اثاثوں کو بیرونی محاذوں پر استعمال کرنے کے بجائے اپنے بین الاقوامی اتحادیوں پر انحصار بڑھانے کو ترجیح دیں گے ۔۔لیکن سینٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز سے منسلک سابق امریکی سفارتکار کارل انڈر فرتھ کہتے ہیں کہ اس کا تعین امریکہ کی قومی سلامتی کی ترجیحات کریں گی۔ وہ کہتے ہیں کہ ممکن ہے اگلے چار سالوں کے دوران امریکی فوج کو کسی ایسی جگہ بھیجنا پڑے، جس کی ہمیں آج توقع نہیں ہے ، لیکن اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ اس سے امریکہ کی قومی سلامتی پر کیا اثرات مرتب ہونگے اور امریکہ کے ساتھ کون کون ہے۔
واشنگٹن میں ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر اوباما کی خارجہ کامیابیاں ہی چین کے صدر ژی جن پنگ (Xi Jinping) اور روس کے صدر ولادی میر پوٹن سے تعلقات آگے بڑھانے میں فیصلہ کن کردار ادا کریں گی ۔ مبصرین کے مطابق یہ دونوں ملک امریکہ کی خارجہ پالیسی میں اہم رہیں گے۔
صدراوباماکا کہنا تھاکہ امریکہ ایشیا سے افریقہ اور لاطینی امریکہ سے مشرق وسطی تک جمہوریت کی حمایت کرے گا کیونکہ ہمارا مفاد اور ہمارا ضمیر ہمیں ان کا ساتھ دینے پر مجبور کرتا ہے جو آزادی کے خواہش مند ہیں۔
واشنگٹن میں مبصرین کا کہنا ہے کہ دوسری مدت کے دوران صدر اوباما کے پاس امریکہ کے اندرونی اور بیرونی معاملات حل کرنے کے لئے کئی مواقع اور کئی چیلنجز ہیں۔
اندرون ملک نئی ملازمتیں پیدا کرنا اور امریکی معیشت کو اپنے پاوں پر کھڑا کرنا ، دوسری مدت صدارت میں صدر اوباما کی اولین ترجیحات رہیں گی ۔ اپنے ریپبلکن حریفوں کی جانب سے انہیں اطمینان کا سانس شائد ہی مل سکے۔ مگر۔۔ امریکی قرضوں کی زیادہ سے زیادہ حد بڑھانے کے معاملے پر اوباما کہہ چکے ہیں کہ وہ ایسی ہر بات چیت پر تیار ہونگے لیکن ایسے مذاکرات امریکی عوام کے سر پر بندوق رکھ کر نہیں کرنا چاہیں گے۔
گزشتہ مہینے امریکی ریاست کنیٹی کٹ کے ایک سکول میں فائرنگ سے چھبیس ہلاکتوں کے بعد ہتھیاروں پر کنٹرول بھی صدر اوباما کی دوسری مدت کے ایجنڈے میں اہم معاملہ بن چکاہے ۔ گن کنٹرول کے معاملے پر صدر اوباما کو اپنے تجویز کردہ نئے قوانین پر امریکہ کی نیشنل رائفل ایسو سی ایشن کی تنقید کا بھی سامنا ہے ۔۔
امیگریشن کی اصلاحات بھی صدر اوباما کی پہلی مدت صدارت کا نا مکمل ہدف ہیں ، اسے وہ اپنی دوسری مدت کے دوران حاصل کرنا چاہیں گے ۔لیکن اس کے لئے کیپیٹل ہل پر اتفاق رائے پیدا کرنا ضروری ہوگا۔ اور اوباما کہہ چکے ہیں کہ حلف برداری کے بعد کانگریس میں اس معاملے کوآگے بڑھانے کے بل پر کام شروع کر دیا جائے گا ۔
واشنگٹن کے بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے جان ہوداک کا خیال ہے کہ صدراوباما اگلی بار بھی کسی ڈیمو کریٹ کو ہی امریکہ کا صدر بنتے دیکھنا چاہیں گے اوردو ہزار سولہ میں امریکی صدر ڈیمو کریٹک پارٹی سے تبھی منتخب ہوگا، جب وہ اپنے موجودہ چار سالوں میں کوئی کامیابی حاصل کرکے دکھائیں ۔
صدر اوباما کو امریکی افواج کو افغانستان سے نکالنے کا مرحلہ دو ہزار چودہ تک اپنے انجام کو پہنچانا ہے ۔ ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف کسی ممکنہ اسرائیلی کارروائی اور شام میں صورتحال بگڑنے کی صورت میں کسی مداخلت کے لئے حمایت حاصل کرنا بھی دوسری مدت کے دوران صدر اوباما کی ترجیحات ہونگی۔
واشنگٹن کے مبصرین کے مطابق صدر اوباما امریکہ کے فوجی اثاثوں کو بیرونی محاذوں پر استعمال کرنے کے بجائے اپنے بین الاقوامی اتحادیوں پر انحصار بڑھانے کو ترجیح دیں گے ۔۔لیکن سینٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز سے منسلک سابق امریکی سفارتکار کارل انڈر فرتھ کہتے ہیں کہ اس کا تعین امریکہ کی قومی سلامتی کی ترجیحات کریں گی۔ وہ کہتے ہیں کہ ممکن ہے اگلے چار سالوں کے دوران امریکی فوج کو کسی ایسی جگہ بھیجنا پڑے، جس کی ہمیں آج توقع نہیں ہے ، لیکن اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ اس سے امریکہ کی قومی سلامتی پر کیا اثرات مرتب ہونگے اور امریکہ کے ساتھ کون کون ہے۔
واشنگٹن میں ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر اوباما کی خارجہ کامیابیاں ہی چین کے صدر ژی جن پنگ (Xi Jinping) اور روس کے صدر ولادی میر پوٹن سے تعلقات آگے بڑھانے میں فیصلہ کن کردار ادا کریں گی ۔ مبصرین کے مطابق یہ دونوں ملک امریکہ کی خارجہ پالیسی میں اہم رہیں گے۔