صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ اُنھوں نے ابھی تک ایران کے ساتھ طے پانے والے نیوکلیئر سمجھوتے کے خلاف حقیقت پر مبنی کوئی مضبوط دلیل نہیں سنی، جس کے نتیجے میں نئے سرے سے اس کا جائزہ لینے کی ضرورت محسوس ہو۔
ایتھیوپیا کے دارلحکومت ادیس ابابا میں ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، مسٹر اوباما نے چند سرکردہ ریپبلیکنز کی جانب سے سمجھوتے کے بارے میں بیان بازی پر نکتہ چینی کی۔
اُنھوں نے کہا کہ اس سمجھوتے کو 99 فی صد لوگ اس لیے اچھا کہہ رہے ہیں کیونکہ یہ واقعی ایک اچھا سمجھوتا ہے۔
ایران کے ساتھ ہونے والے سمجھوتے کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل منظوری دے چکی ہے۔ تاہم، اوباما انتظامیہ کے حکام کی طرف سے اس کی حمایت میں بیانات اور شہادتوں کے باوجود، کانگریس کے چند ہی نئے چہروں کو اپنا حامی بنایا جا سکا ہے۔
سجھوتے کو مسترد کیے جانے کی صورت میں، امریکی صدر براک اوباما نے اس فیصلے کو ویٹو کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔
ویٹو پر حاوی پانے کی ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے کہ کانگریس کے دونوں ایوان دو تہائی اکثریت سے اس کی مخالفت میں ووٹ دیں، جس کا مطلب یہ ہوا کہ مسٹر اوباما کی ڈیموکریٹ پارٹی کے متعدد ارکان کو اپنے ساتھ ملا کر ہی ریپبلیکن سمجھوتے کو مسترد کر سکتے ہیں۔
گذشتہ ہفتے، سمجھوتے پر کھلی سماعت کے دوران انتظامیہ کے اعلیٰ عہدے داروں کو سخت قسم کے سوالات کا سامنا کرنا پڑا، جسے کانگریس ستمبر کے وسط تک منظور یا مسترد کر سکتا ہے۔
سماعت کے دوران، وزیر خارجہ جان کیری نے شہادت پیش کی، جس پر امور خارجہ کمیٹی کے سربرہ، بوب کروکر نے اُنھیں ٹوکتے ہوئے کہا کہ: ’ایرانیوں نے آپ کو لوٹ لیا ہے‘۔
کیری نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں جو درکار تھا وہ ہم نے وصول کر لیا ہے۔۔۔ اصل سوال یہ ہے کہ آپ اُن کا پروگرام کس طرح بند کراسکتے ہیں‘۔