اس ماہ کے اوائل میں ایران کے ساتھ ویانا میں جوہری سمجھوتا طے کرنے پر، اوباما انتظامیہ کے اعلیٰ عہدے داروں نے جمعرات کے دِن سینیٹ میں سخت سوالات کا سامنا کیا۔ سمجھوتے پر یہ پہلی عام سماعت تھی، جسے وسط ستمبر میں یا تو کانگریس منظور کرے گا یا مسترد۔
سماعت کے دوران، وزیر خارجہ جان کیری ایک گواہ کے طور پر پیش ہوئے۔ امور خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے سربراہ، بوب کروکر نے کہا کہ ’ایرنیوں نے ہمیں لوٹ لیا ہے‘۔
کیری نے جواب دیا کہ ’جو ہمیں درکار تھا، وہ ہمیں مل چکا ہے۔۔۔ یہ اس نوعیت کا سوال ہے کہ آپ اُن کے پروگرام کو کس طرح بند کراسکتے ہیں‘۔
اس سے قبل، کیری نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جوہری معاہدہ دنیا کو محفوظ بنائے گا۔
بقول اُن کے، ’ہمیں یقین ہے کہ عالمی طاقتوں کے توسط سے طے ہونے والا یہ سمجھوتا ایسا ہے، جس سے ایران کو جوہری ہتھیاروں کےممکنہ حصول سے دور رکھا جا سکے گا۔‘
ایران کی جانب سے جوہری پروگرام کو ترک کرنے کے بدلے، اُس پر عائد پابندیاں اٹھا لی جائیں گی۔
توانائی کے وزیر ارنیسٹ مونیز، اور وزیر مالیات جیک لیو کے ہمراہ، کیری نے سماعت کے دوران شہادت پیش کی۔ اوباما انتظامیہ کے اعلیٰ اہل کار، جنھوں نے یہ جوہری سمجھوتا طے کرنے میں حصہ لیا، بدھ کے روز واشنگٹن میں سمجھوتے کے بارے میں قانون سازوں کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔
سماعت سے ایک روز قبل، ایوان کے اسپیکر جان بینر نے ریپبلیکن پارٹی کے ارکان کی جانب سے، جنھیں دونوں ایوانوں میں اکثریت حاصل ہے، عہد کیا کہ سمجھوتے کو ختم کرانے کی کوئی کثر نہیں چھوڑیں گے۔
بینر کے بقول، ’کیونکہ ایک خراب سمجھوتا امریکی عوام کی سکیورٹی کے لیے خطرے کا باعث ہے، اسے روکنے کے لیے ہم ہر ممکن اقدام کریں گے‘۔
اگر یہ سمجھوتا مسترد ہوتا ہے، تو امریکی صدر براک اوباما نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ایسے کسی فیصلے کو ویٹو کردیں گے۔
ویٹو پر حاوی آنے کے لیے کانگریس کے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت ضروری ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ مسٹر اوباما کی ڈٰیموکریٹ پارٹی کے متعدد ارکان کو ریپبلیکن کا ساتھ دینا ہوگا۔
بدھ کو بند کمرے کے اجلاسوں کے دوران، ڈیموکریٹ پارٹی کے متعدد ارکان کا مؤقف واضح نہیں تھا۔ اُنھوں نے کہا کہ فیصلہ کرنے سے پہلے وہ سمجھوتے کا مطالعہ کرنا چاہیں گے۔