امریکہ کے صدر براک اوباما اسرائیل کے اس مطالبے کو مسترد کیا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق حتمی معاہدے میں " یہ عہد بھی شامل کیا جائے کہ وہ (تہران) اسرائیل کے بقا کے حق کو واضح طور پر تسلیم کرتا ہے۔"
اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق معاہدے کے خدوخال پر چھ عالمی طاقتوں کے اتفاق پر سخت تنقید کرتے ہوئے گزشتہ جمعہ کو یہ مطالبہ کیا تھا۔
صدر اوباما نے امریکی صحافتی ادارے ’’این پر آر‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے اس مسئلے پر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ ’’ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے لیے ایک قابلِ تصدیق معاہدے کو ایران کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے ساتھ مشروط کرنا یہ کہنے کے مترادف ہے کہ ہم اس وقت تک ایران کے ساتھ معاہدے پر دستخط نہ کریں جب تک ایرانی طرزِ حکومت مکمل طور پر تبدیل نہ ہو جائے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہم اسی لیے چاہتے ہیں کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل نہ کرے کیونکہ ہم ایران میں طرزِ حکومت کی تبدیلی پر تکیہ (یا اس کا انتظار) نہیں کر سکتے۔ اسی لیے ہم چاہتے کہ جوہری ہتھیار نہ بنیں۔ اگر ایران اچانک اپنے آپ کو تبدیل کرکے جرمنی، سویڈن یا فرانس جیسا بن جاتا ہے تو پھر جوہری ڈھانچے پر ایک بہت مختلف قسم کا مکالمہ ہو گا۔‘‘
اسرائیل کا اصرار ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کے معاہدے سے متعلق لائحہ عمل پر اتفاق اس کی بقا کے لیے خطرہ ہے اور نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ وہ امریکی قانون سازوں پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ تہران کو "بم حاصل کرنے کے راستہ فراہم نہ کریں۔"
اتوار کو امریکی ٹی وی چینلز پر نیتن یاہو نے بتایا کہ انھوں نے اس معاملے پر کانگریس کے ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز ارکان سے بات کی ہے۔
صدر اوباما کا کہنا تھا کہ معاہدے کا متفقہ فریم ورک ایک "اچھا معاہدہ" ہے جو کہ "سخت اصولی سفارتکاری" کے ذریعے حاصل کیا گیا۔
گزشتہ جمعرات کو ایران اور چھ عالمی طاقتوں (برطانیہ، فرانس، روس، چین، امریکہ اور جرمنی) نے سوئٹزرلینڈ میں تقریباً ایک ہفتے تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد ایسے خدوخال پر اتفاق کیا تھا جس کی بنیاد پر 30 جون تک حتمی معاہدے پر پہنچا جا سکے گا۔
اس معاہدے کے تحت ایران کو یورینیئم کی افژودگی کی شرح میں کمی کے ساتھ ساتھ اپنے سینٹری فیوجز کی تعداد میں بھی قابل ذکر کمی کرنا ہوگی جب کہ بین الاقوامی معائنہ کار باقاعدگی سے ایران کی جوہری تنصیبات کا معائنہ کرتے رہیں گے۔
اس کے بدلے ایران پر عائد بین الاقوامی پابندیاں اٹھا لی جائیں گی۔
ایران کے صدر حسن روحانی نے عزم ظاہر کیا ہے کہ ان کا ملک اس معاہدے کی "اس وقت تک پاسداری کرتا رہے گا جب کہ دوسرا فریق اس پر کاربند رہے گا۔"