وائٹ ہاؤس، واشنگٹن —
صدر براک اوباما اپنے اسرائیل، مقبوضہ مغربی کنارے اور اردن کے دورے میں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں سے کہیں گے کہ امن کی کوششیں پھر شروع کی جائیں۔ ان کے ایجنڈے میں ایران کا نیوکلیئر پروگرام اور شام کی خانہ جنگی بھی شامل ہے۔
مسٹر اوباما آخری بار 2008 میں اسرائیل گئے تھے۔ اس وقت وہ ایک سینیٹر اور صدارتی امیدوار تھے۔ اب وہ اپنی صدارت کی دوسری مدت میں ایک بار پھر اسرائیل جا رہے ہیں لیکن وہ مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو عبور نہیں کر سکے ہیں۔
ان کے پاس امن کا کوئی نیا منصوبہ نہیں ہو گا لیکن وہ ایک پیغام پہنچائیں گے۔ وائٹ ہاؤس کے ڈپٹی پریس سکریٹری جیش ایرنسٹ کہتے ہیں کہ‘‘وہ پیغام یہ ہے کہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان امن اب بھی صدر کی ترجیح ہے۔ اگر اس سلسلے میں مذاکرات کا آغاز ہو سکے تو صدر اس کی مکمل حمایت کرنے کو تیار ہیں۔’’
امریکہ دو مملکتوں، اسرائیل اور فلسطین کی حمایت کرتا ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ امن و امان سے رہ سکیں۔ لیکن اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو کے ساتھ مسٹر اوباما کے تعلقات کشیدہ رہے ہیں، خاص طور سے مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کے قائم کیے جانے پر۔
یو ایس انسٹیٹویٹ فار پیس کے نیل کریٹز کہتے ہیں کہ مسٹر اوباما دونوں فریقوں کو اطمینان دلائیں گے کہ وہ ان کے حقوق اور ان کی سیکورٹی کے حامی ہیں۔ بہت کچھ داؤں پر لگا ہوا ہے۔
‘‘صدر اوباما کے لیے ایک اہم چیلنج یہ ہوگا کہ کس مرحلے پر دو ریاستوں والے حل کا حصول زیادہ مشکل ہو جائے گا ۔ وہ یہ نہیں چاہتے کہ لوگ یہ کہیں کہ ان کے عہد ِ صدارت میں دو ریاستوں والا حل نا ممکن ہو گیا تھا۔’’
مسٹر اوباما گذشتہ نومبر میں دوسری مدت کے لیے صدر منتخب ہوئے ۔ انتخابی مہم کے دوران ان کے مخالف امید وار مٹ رومنی نے اسرائیل کے لیے مسٹر اوباما کی حمایت کے بارے میں شک و شبہے کا اظہار کیا تھا۔ اس کے باوجود یہودیوں کے 69 فیصد ووٹ مسٹر اوباما کو ملے۔
ایرون کییاک نیشنل جیوش ڈیموکریٹک کونسل کے ایگزیکیوٹو ڈائریکٹر ہیں۔ اس گروپ کو حال ہی میں صدر کے ساتھ بات چیت کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ‘‘جیسا کہ ایک کے بعد دوسرے انتخاب میں ظاہر ہوا ہے، یہ صدر یہودیوں کے سچے دوست رہے ہیں اور امریکہ کے یہودی ووٹروں نے بھی ان کے اس جذبے کی قدر کی ہے۔’’
تجزیہ کار ایرک فسفیلڈ کہتے ہیں کہ مسٹر اوباما کا مشرقِ وسطیٰ کا دورہ یہ دیکھنے کا موقع ہے کہ درحقیقت وہاں کیا ہو رہا ہے۔
‘‘سچی بات یہ ہے کہ آمنے سامنے بیٹھ کر بات کرنے، عام لوگوں سے ملنے جلنے اور اپنی آنکھوں سے یہ دیکھنے اور محسوس کرنے کا کوئی متبادل نہیں ہے کہ آج کل اسرائیل میں کیا ہو رہا ہے۔’’
کئی عرب امریکی گروپ بھی وائٹ ہاؤس گئے۔ ان میں امریکن عرب اینٹی ڈسکریمنیشن کمیٹی بھی شامل ہیں جس کے صدر وارن ڈیوڈ ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ عرب امریکیوں نے مسٹر اوباما سے کہا کہ فلسطینی ریاست کی تشکیل میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے اور یہ بڑی مایوس کن بات ہے۔
‘‘میں نے ان سے صاف صاف کہہ دیا کہ مجھے امید ہے کہ آپ اپنے پیچھے ایک ورثہ چھوڑیں گے، اور یہ ورثہ آپ بحیثیت صدر حاصل کریں گے ۔ میں آپ کو بتانا چاہوں گا کہ ابتدا میں ، میں بہت زیادہ مایوس تھا، لیکن جب میں رخصت ہوا تو میرے دل میں تھوڑی سی امید پیدا ہو گئی تھی۔ اس کی وجہ وہ باتیں تھیں جو صدر نے کہیں اور جو ان کے مشیروں نے کہیں۔’’
ڈیوڈ کہتے ہیں کہ عرب امریکیوں نے مسٹر اوباما سے کہہ دیا کہ انہیں امید ہے کہ بالآخر اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن قائم ہو جائے گا۔
مسٹر اوباما آخری بار 2008 میں اسرائیل گئے تھے۔ اس وقت وہ ایک سینیٹر اور صدارتی امیدوار تھے۔ اب وہ اپنی صدارت کی دوسری مدت میں ایک بار پھر اسرائیل جا رہے ہیں لیکن وہ مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو عبور نہیں کر سکے ہیں۔
ان کے پاس امن کا کوئی نیا منصوبہ نہیں ہو گا لیکن وہ ایک پیغام پہنچائیں گے۔ وائٹ ہاؤس کے ڈپٹی پریس سکریٹری جیش ایرنسٹ کہتے ہیں کہ‘‘وہ پیغام یہ ہے کہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان امن اب بھی صدر کی ترجیح ہے۔ اگر اس سلسلے میں مذاکرات کا آغاز ہو سکے تو صدر اس کی مکمل حمایت کرنے کو تیار ہیں۔’’
امریکہ دو مملکتوں، اسرائیل اور فلسطین کی حمایت کرتا ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ امن و امان سے رہ سکیں۔ لیکن اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو کے ساتھ مسٹر اوباما کے تعلقات کشیدہ رہے ہیں، خاص طور سے مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کے قائم کیے جانے پر۔
یو ایس انسٹیٹویٹ فار پیس کے نیل کریٹز کہتے ہیں کہ مسٹر اوباما دونوں فریقوں کو اطمینان دلائیں گے کہ وہ ان کے حقوق اور ان کی سیکورٹی کے حامی ہیں۔ بہت کچھ داؤں پر لگا ہوا ہے۔
‘‘صدر اوباما کے لیے ایک اہم چیلنج یہ ہوگا کہ کس مرحلے پر دو ریاستوں والے حل کا حصول زیادہ مشکل ہو جائے گا ۔ وہ یہ نہیں چاہتے کہ لوگ یہ کہیں کہ ان کے عہد ِ صدارت میں دو ریاستوں والا حل نا ممکن ہو گیا تھا۔’’
مسٹر اوباما گذشتہ نومبر میں دوسری مدت کے لیے صدر منتخب ہوئے ۔ انتخابی مہم کے دوران ان کے مخالف امید وار مٹ رومنی نے اسرائیل کے لیے مسٹر اوباما کی حمایت کے بارے میں شک و شبہے کا اظہار کیا تھا۔ اس کے باوجود یہودیوں کے 69 فیصد ووٹ مسٹر اوباما کو ملے۔
ایرون کییاک نیشنل جیوش ڈیموکریٹک کونسل کے ایگزیکیوٹو ڈائریکٹر ہیں۔ اس گروپ کو حال ہی میں صدر کے ساتھ بات چیت کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ‘‘جیسا کہ ایک کے بعد دوسرے انتخاب میں ظاہر ہوا ہے، یہ صدر یہودیوں کے سچے دوست رہے ہیں اور امریکہ کے یہودی ووٹروں نے بھی ان کے اس جذبے کی قدر کی ہے۔’’
تجزیہ کار ایرک فسفیلڈ کہتے ہیں کہ مسٹر اوباما کا مشرقِ وسطیٰ کا دورہ یہ دیکھنے کا موقع ہے کہ درحقیقت وہاں کیا ہو رہا ہے۔
‘‘سچی بات یہ ہے کہ آمنے سامنے بیٹھ کر بات کرنے، عام لوگوں سے ملنے جلنے اور اپنی آنکھوں سے یہ دیکھنے اور محسوس کرنے کا کوئی متبادل نہیں ہے کہ آج کل اسرائیل میں کیا ہو رہا ہے۔’’
کئی عرب امریکی گروپ بھی وائٹ ہاؤس گئے۔ ان میں امریکن عرب اینٹی ڈسکریمنیشن کمیٹی بھی شامل ہیں جس کے صدر وارن ڈیوڈ ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ عرب امریکیوں نے مسٹر اوباما سے کہا کہ فلسطینی ریاست کی تشکیل میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے اور یہ بڑی مایوس کن بات ہے۔
‘‘میں نے ان سے صاف صاف کہہ دیا کہ مجھے امید ہے کہ آپ اپنے پیچھے ایک ورثہ چھوڑیں گے، اور یہ ورثہ آپ بحیثیت صدر حاصل کریں گے ۔ میں آپ کو بتانا چاہوں گا کہ ابتدا میں ، میں بہت زیادہ مایوس تھا، لیکن جب میں رخصت ہوا تو میرے دل میں تھوڑی سی امید پیدا ہو گئی تھی۔ اس کی وجہ وہ باتیں تھیں جو صدر نے کہیں اور جو ان کے مشیروں نے کہیں۔’’
ڈیوڈ کہتے ہیں کہ عرب امریکیوں نے مسٹر اوباما سے کہہ دیا کہ انہیں امید ہے کہ بالآخر اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن قائم ہو جائے گا۔